پاں پاں کی آواز اور باجے، یہ کیسی آزادی منائی جارہی ہے!

اگست یعنی آزادی کے مہینے کا شروع ہونا ہی تھا کہ دل میں حب الوطنی کا جذبہ جاگ گیا۔ وطن عزیز کے حصول کے لیے ہمارے آباو اجداد نے جو قربانیاں دیں وہ رہ رہ کر یاد آنے لگی اور موازنہ کرنے لگا کہ آخر ہم نے وطن عزیز کے لیے کیا خدمات سر انجام دی ہیں؟
خیر….! تہیہ کیا کہ آج سے دل لگا کر پڑھوں گا اور ملک کا نام روشن کروں گا۔ اوّل تو چائے بنائی کہ کہیں مطالعے کے دوران نیند خلل پیدا نہ کرے، کھڑکیاں کھولیں کہ ہوا اور روشنی خوب آئے اور دل جمعی کے ساتھ پڑھ سکوں۔ یہ سب انتظامات کرکے کتاب کھولی اور سکون سے پڑھنے لگا۔ ابھی چند سطریں ہی پڑھیں تھیں کہ اچانک کان میں آواز پڑی: …. ’پاں پاں!‘ ارے مانا کہ جناح کی قوم سورہی ہے اُسے جگانے کی ضرورت ہے مگر کیا یہی ایک ساز بچا تھا….!! دن دیہاڑے محلے کے بچے گلی میں باجا لے کر سوئی قوم کی نیندیں حرام کرنے کی سازشیں رچا رہے تھے۔ خیر! میں نے بھی سر پر کفن باندھ لیا جہاد کی نیت سے باہر نکلا کہ چلو آج ایک آدھ باجے کا ”قتلِ عام“ کیا جائے تاکہ بقیہ بچوں کے لیے عبرت ہو۔ اوّل تو میں نے بچے کو 14 اگست اور آزادی کا سمجھایا۔ بچہ غور سے سنتا رہا اور آخر میں اُس نے زور میرے کان میں باجا بجا کر بولا: ”بھیا آزادی مبارک ہو!“ میں نے جواباً باجا توڑ کر کہا: خیر مبارک! واپس آکر پھر سے پڑھنے لگا۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ بچہ محلے کے بچوں کی پوری بارات لے کر میرے گھر کے دروازے پر باجا بجانے لگا۔ تنگ آکر آخر کتاب بند کی اور اس ننھی فوج سے معافی مانگی بھئی تم جیتے! آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس قوم کو جگانے کے لیے ابھی بہت جدوجہد کی ضرورت ہے۔
آزادی ایک بڑی نعمت ہے، اس خوشی کا اظہار کا طریقہ شریعت کے مطابق اور عاجزی اور بندگی کے اظہار کی صورت ہی میں ہونا ضروری ہے، جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتحِ مکہ کے موقع پر انتہائی تواضع اختیار فرماکر اُمت کی تربیت فرمائی۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز فاتحانہ نہیں بلکہ عابدانہ و عاجزانہ تھا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع، عاجزی، حلم، رواداری، کشادہ دلی، امن و مواخات اور مواسات کی عملی مثال بن کر اُمت کے لیے خوشی و آزادی کے اظہار کا طریقہ واضح فرمادیا، مگر اس بات کی آگاہی بچوں سے پہلے بڑوں میں ہونا ضروری ہے تاکہ آزادی کی حقیقت جان کر ملکی ترقی کے لیے صحیح معنوں میں جدوجہد کی جائے۔
قارئین! یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ باجے محض ایک کھلونا یا شور پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں رہے بلکہ یہ آہستہ آہستہ ہمارے معاشرتی رویّوں کا آئینہ بن گئے ہیں۔ 14 اگست جیسے دن جو شکرگزاری، قربانیوں کی یاد اور قومی اتحاد کا دن ہونا چاہیے، ان باجوں کی بے ہنگم چیخیں اسے ایک بے قابو شور و غوغا میں بدل دیتی ہیں۔ گلی، بازار اور سڑکوں پر یہ کان پھاڑ دینے والی آوازیں نہ صرف قومی دن کی سنجیدگی اور وقار کو مجروح کرتی ہیں بلکہ عام لوگوں کے لیے حقیقی اذیت کا باعث بنتی ہیں۔ بیمار افراد، بوڑھے، چھوٹے بچے اور وہ لوگ جو پڑھائی یا کام میں مصروف ہیں، اِس شور سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ یہ صرف شور نہیں بلکہ ایک ایسا طرزِ عمل ہے جو دوسروں کی تکلیف کو نظرانداز کرکے اپنی وقتی خوشی کو ترجیح دیتا ہے۔ آزادی کا مطلب محض شور مچانا یا ہلڑ بازی نہیں بلکہ دوسروں کے حقوق، سکون اور احترام کو ملحوظ رکھنا ہے۔ اگر خوشی منانے کا انداز دوسروں کو اذیت دے تو وہ خوشی نہیں بلکہ خودغرضی اور بے وقوفی ہے اور یہ ہماری آزادی کے اصل پیغام کے سراسر خلاف ہے۔ (عمیرشیخ ۔ خیرپور میرس )