’میں‘ کا مرض

دنیا میں انسان کو جو سب سے بڑا دشمن لاحق ہوسکتا ہے وہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہوتا ہے۔ وہ دشمن جو باہر سے نہیں بلکہ انسان کے اپنے نفس کے اندر سے سر اٹھاتا ہے۔ یہ دشمن بہت خاموش، چالاک اور دھوکہ باز ہوتا ہے۔ یہی دشمن ”میں“ کا مرض ہے۔
”میں کون ہوں؟“ یہ سوال جب علم اور شعور کی تلاش میں کیا جاتا ہے تو یہ انسان کو معرفت کی طرف لے جاتا ہے لیکن یہی ’میں ‘جب خودستائی، غرور اور تکبر کا لباس پہن لیتی ہے تو انسان کو اندھیرے میں دھکیل دیتی ہے۔ ’میں‘ کا یہ مرض صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ اجتماعی زندگی میں بھی زہر گھول دیتا ہے۔
’میں‘ جب فخر اور خودپسندی میں مبتلا ہو جائے تو انسان اپنی اصل کو بھول جاتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کا وجود فانی ہے اور اس کا ہر کمال خدا کا عطا کردہ ہے۔ مگر ’میں‘ کا مرض اسے باور کرواتا ہے کہ وہ خود ہی سب کچھ ہے۔ وہ جو کچھ حاصل کرتا ہے، وہ اپنی محنت کا نتیجہ سمجھتا ہے اور ان ہزاروں نعمتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے جو بلامعاوضہ عطا ہوئیں۔یہ مرض صرف غرور تک محدود نہیں رہتا بلکہ حسد، کینہ، بغض، حقارت، خودنمائی، ریاکاری اور تفرقہ کی جڑ بھی یہی ’میں‘ بنتی ہے۔ ایک شخص اپنے آپ کو باقیوں سے برتر سمجھتا ہے، دوسرے کو کم تر سمجھتا ہے اور پھر انسانوں کے بیچ خلیجیں پیدا ہونے لگتی ہیں۔
معاشرہ اُسی وقت مضبوط ہوتا ہے جب افراد میں باہمی عزت، تعاون، قربانی اور اخلاص کا جذبہ پایا جائے۔ لیکن جب ’میں‘ کی آلودگی دلوں میں سرایت کرجائے تو فرد فرد خود کو مرکز سمجھنے لگتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ بس اُس کی بات سنی جائے، اس کی رائے کو فوقیت دی جائے، اس کے مفادات مقدم رکھے جائیں۔ اس رویے سے معاشرتی ہم آہنگی ٹوٹنے لگتی ہے۔ اتحاد، ایثار، برداشت اور قربانی کی اقدار دم توڑنے لگتی ہیں۔آج ہمارے گھر، ادارے، سیاسی جماعتیں، حتیٰ کہ دینی حلقے بھی اسی ’میں‘ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ہر فرد، ہر قائد، ہر مقرر، ہر لکھاری اور ہر عالم اپنی ذات کو مرکز بنا کر بات کرتا ہے۔ اختلاف کو برداشت کرنا تو درکنار، اختلاف رکھنے والے کو دشمن تصور کیا جاتا ہے۔
اسلام کی اصل روح ’میں‘ سے انکار پر مبنی ہے۔ اذان کا پہلا جملہ ’ اللہ اکبر‘ اعلان کرتا ہے کہ بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے۔ نماز میں ہم ’ایاک نعبد ‘ کہہ کر اجتماعی بندگی کا اقرار کرتے ہیں، نہ کہ ’ ایاک اعبد‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا‘۔ عرفانِ ذات، تواضع، شکرگزاری، خود احتسابی اور عاجزی وہ اسلحے ہیں جن سے ’میں‘ کے اس خبیث دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے۔ انسان جب یہ جان لے کہ ہر کمال اللہ کا فضل ہے، ہر کامیابی اُس کی عطا ہے اور ہر شخص کسی نہ کسی خوبی میں دوسروں سے بہتر ہوسکتا ہے تو وہ جھکنا سیکھ لیتا ہے۔ فرعون نے کہا تھا: ’ انا ربکم الاعلیٰ ‘’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘ تو اُس کا انجام کیا ہوا؟ عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ شیطان نے ’میں‘ کی بنیاد پر آدم کو سجدہ نہ کیا کہ ”میں اس سے بہتر ہوں“ اور ہمیشہ کے لیے مردود قرار پایا۔ یہ دونوں قصے ہمیں ”میں“ کے انجام کی تصویر دکھاتے ہیں۔
’میں‘ کا مرض بظاہر چھوٹا لگتا ہے مگر اندر ہی اندر انسان کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے، دل کو سخت کر دیتا ہے، رشتوں کو کاٹ دیتا ہے اور انسان کو انسان سے دور کر دیتا ہے۔ یہ وہ بیماری ہے جس کا علاج دنیا کی کسی دوا سے ممکن نہیں، مگر سچے شعور، عاجزی اور روحانی تربیت سے اسے شکست دی جا سکتی ہے۔آئیے! اپنے اندر جھانکیں، اپنی ’میں‘ کو پہچانیں اور اس کے خلاف جدوجہد کریں، کیونکہ اگر ہم ’میں‘ کے بت کو پاش پاش نہ کریں گے، تو ہم خود اس کے نیچے دب کر فنا ہوجائیں گے۔ اللہ ہمیں ’میں‘ کی آفت سے محفوظ رکھے۔ آمین! (محمد علی ضیا۔ لاہور)