رپورٹ: علی ہلال
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد فراہم کرنے والے تمام عالمی اداروں پر پابندی عائد کرنے کے بعد ستائیس مئی سے ایک مشکوک امدادی تنظیم غزہ ہیومینیٹیرین ریلیف نے امدادی سرگرمیوں کے نام پر کارروائیوں کا آغاز کیا جو امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ تنظیم ہے۔
رپورٹ کے مطابق’غزہ ہیومینیٹیرین فاونڈیشن‘ جو رواں برس فروری میں امریکی ریاست ڈیلاویئر میں قائم کی گئی ہے قتل و غارت کے ان روح فرسا واقعات میں مرکزی کردار ادا کرنے والی تنظیم سمجھی جارہی ہے۔ اس پر مشکوک غذائی امداد کی تقسیم کا الزام ہے جس کے نتیجے میں شدید بدنظمی اور سینکڑوں افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔ انسانی حقوق کے ذرائع کے مطابق یہ تنظیم دراصل ایک پیچیدہ فوجی و انٹیلی جنس آپریشن کا چہرہ ہے جسے امریکی اور اسرائیلی اداروں نے مل کر تیار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کی نگرانی ’بوسٹن کنسلٹنگ گروپ‘ کر رہا تھا۔ اسی پس منظر میں ’جی ڈی سی‘یا ’گلوبل ڈیلیوری کمپنی‘ سامنے آئی جو ایک سیکیورٹی اور لاجسٹک کمپنی ہے۔ اسے اسرائیلی امریکی بزنس مین مردخائی (موتی) کاہانا نے 1968ء میں قائم کیا تھا۔ اس کمپنی کو ماضی میں یہودیوں کے انخلا اور اسرائیلی مفادات کے لیے لاجسٹک مدد فراہم کرنے کے لیے جانا جاتا تھا۔ اس تنظیم سے امداد لینے والے اسرائیلی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بننے لگے۔ غزہ کی وزارتِ صحت نے کہا ہے کہ 27 مئی سے اب تک امداد کے منتظر بھوک سے متاثرہ افراد میں شہداءکی تعداد 1422 تک پہنچ چکی ہے جبکہ 10 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ اس دوران ہفتے کے روز تک بھوک اور غذائی قلت کے سبب جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 169 ہو گئی ہے جن میں 93 بچے شامل ہیں، جیسا کہ غزہ کی وزارتِ صحت کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
امریکی حمایت سے جاری اس نسل کشی نے اب تک تقریباً لاکھ 9 ہزار فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کیا ہے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جبکہ 9 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں اور لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بھوک اور قحط نے بے شمار جانیں نگل لی ہیں۔ یہ معاملہ عالمی میڈیا کا اہم موضوع بن گیا جس پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی احتجاج کیا۔ اسرائیل نے پچیس جولائی سے عالمی سطح بالخصوص یورپی ممالک کے اشتعال کو کم کرنے کے لیے غزہ میں کچھ ممالک کو فضا سے امداد اُتارنے کی اجازت دے دی جس کے بعد متحدہ عرب امارات اور اُردن کے طیاروں نے کچھ امداد اتاری ہے۔ تاہم اب اس امداد کے بارے سامنے آنے والی رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ یہ محض آنکھوں میں جھونکنے کی کوشش تھی۔
غزہ میں امدادی سامان کے فضا کے ذریعے سے گرائے جانے کے تصور کو بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں، بشمول فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد اور بحالی کے ادارے ’اونروا‘ کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اونروا نے واضح کیا کہ یہ اقدام ’شدید ہوتے ہوئے قحط‘ کو ختم نہیں کرے گا اور اسے ’توجہ ہٹانے کا ایک ہتھکنڈا اور انسانی تباہی کی اصل حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے دھواں‘ قرار دیاہے۔ سات اکتوبر 2023ء سے غزہ میں جاری نسل کشی کے ساتھ ساتھ قابض اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو بھوکا مارنے کے جرم کا ارتکاب کر رہی ہے اور دو مارچ کو اس نے تمام امدادی، طبی اور انسانی امداد کی رسد کو بند کرتے ہوئے غزہ کی ناکہ بندی مزید سخت کر دی، جس کے نتیجے میں قحط پھوٹ پڑی اور اس کے اثرات تباہ کن سطح تک پہنچ گئے۔رپورٹ کے مطابق غزہ کے علاقے پر فضائی طور پر گرائے جانے والے امدادی سامان کی درست مقدار کا کوئی حتمی حساب موجود نہیں ہے، تاہم اسرائیلی فوجی ریڈیو نے دو روز قبل بتایا کہ 150 صندوقوں کا وزن تقریباً 5 تجارتی ٹرکوں کے برابر ہوتا ہے۔
اسرائیلی فوجی ریڈیو نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ان امدادی صندوقوں میں جرمنی، فرانس، اسپین، بحرین اور بیلجیئم شامل ہیں۔ ریڈیو کے مطابق گزشتہ دنوں کے دوران فضا سے گرائے گئے تمام امدادی سامان کی مجموعی تعداد 200 صندوقوں سے زیادہ نہیں جو کہ تقریباً 6 اور نصف ٹرکوں کے برابر ہے۔ ہفتے کے روز اردنی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے غزہ میں انسانی اور غذائی امداد پہنچانے کے لیے 5 مزید فضائی پروازیں انجام دی ہیں جبکہ غزہ میں قحط کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اردنی فوج نے بتایا کہ ان امدادی پروازوں میں 36 ٹن سامان بھیجا گیا۔
جمعے کے روز بھی اردنی فوج نے 7 فضائی پروازوں کے ذریعے غزہ میں انسانی اور غذائی امداد گرائی جس میں چار دیگر ممالک کی فضائی افواج نے بھی حصہ لیا۔ یہ امدادی کوششیں اسرائیلی جنگ کے دوران فلسطینیوں کی حمایت کے لیے جاری ہیں اور اس سامان کا مجموعی وزن 57 ٹن تھا۔اُردنی فوج کے بیان کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں دوبارہ شروع کی گئی فضائی امداد کے ذریعے غزہ میں گرائے گئے سامان کی کل مقدار تقریباً 148 ٹن ہو چکی ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ جنگ کے آغاز سے اب تک اردن کی جانب سے غزہ پر کی گئی فضائی امدادی پروازوں کی تعداد 133 ہو گئی ہے جبکہ ’برادر اور دوست ممالک‘ کے ساتھ مشترکہ طور پر انجام دی گئی امدادی کارروائیوں کی تعداد 276 تک پہنچ چکی ہے۔ غزہ کے علاقے میں موجود فلسطینیوں نے بتایا کہ ایک ہفتے کے دوران فضائی امداد کے گرنے کی حقیقت کچھ نہیں ہے۔ امداد کے زیادہ تر صندوق ایسی جگہوں پر گرتے ہیں جو ’ریڈزون‘ (یعنی خطرناک علاقوں) میں شمار ہوتی ہیں اور جہاں اسرائیلی فوج موجود ہوتی ہے جس کے باعث لوگ ان امداد سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
رپورٹ کے مطابق یکم اگست 2025ء کو امدادی سامان کے فضائی گراو کے دوران شدید بمباری ہورہی تھی، خاص طور پر خان یونس کے شمال میں ’حمد‘ کے علاقے میں۔ رپورٹ کے مطابق امداد کے کئی صندوق ان علاقوں میں گرے جہاں اسرائیلی فوج کا قبضہ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ امداد کی مقدار بہت کم ہے اور یہ فوری ضروریات پوری کرنے کے لیے بالکل ناکافی ہے، خاص طور پر جب قحط کی علامات تباہ کن سطح تک پہنچ چکی ہیں۔غزہ کے باشندوں نے بتایا کہ ’ہم فضائی امداد سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی ان چند ٹرکوں تک پہنچ سکتے ہیں جنہیں اسرائیل کبھی کبھار غزہ میں داخل ہونے دیتا ہے۔ یہ ٹرک اکثر اسرائیلی فوج کے قریب لوٹ لیے جاتے ہیں یا براہِ راست فائرنگ اور حملوں کا نشانہ بنتے ہیں‘۔ کئی متاثرین نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صبح سے فضائی امداد کا انتظار کر رہا ہے، لیکن زیادہ تر امداد ایسی جگہوں پر گرائی جاتی ہے جو اسرائیلی فوج کے قریب ہوتی ہیں۔‘اگر ہم کسی طرح ان مقامات تک پہنچ بھی جائیں جہاں امداد گری ہے تو بھی ان سے صرف چند لوگ ہی فائدہ اٹھا پاتے ہیں، کیونکہ لوگوں کی ضروریات بہت زیادہ اور امداد بہت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق پروازوں سے بعض امداد کے صندوق سمندر میں جا گرتے ہیں۔
