حکومت نے ملک بھر میں موجود چینی کا تمام ذخیرہ اپنے کنٹرول میں لے لیا

وفاقی حکومت نے ملک میں جاری چینی کے بحران کے پیش نظر شوگر ملز کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ملک بھر میں موجود چینی کا تمام ذخیرہ اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ وزارت فوڈ حکام کے مطابق 18شوگر ملز کے مالکان کے نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیے گئے ہیں، چند دنوں میں ای سی ایل میں ڈالے گئے نام بھی جاری کریں گے۔

حکام کا کہنا ہے کہ 19لاکھ میٹرک ٹن چینی شوگر ملز کی بجائے حکومتی کنٹرول میں چلی گئی، فیصلہ چینی کی مصنوعی قلت اور قیمتیں مزید بڑھنے کے خدشے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ وزارت فوڈ حکام کا مزید کہنا ہے کہ تمام شوگر ملز میں چینی اسٹاک پر ایف بی آر کے ایجنٹس تعینات کر دیے گئے ہیں، شوگر ملوں کے چینی اسٹاک پر ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لگادیا گیا ہے۔

ادھروفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر نے کہا ہے کہ چینی وافر مقدار میں دستیاب ہے اور قیمت بھی دسترس میں ہے عام آدمی کے بجٹ پر بھی فرق نہیں پڑ رہا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا پر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک میں چینی کا بہت مسئلہ ہے ڈیمانڈ سپلائی اور قیمت کے مسائل ہیں، کہا جاتا ہے پہلے چینی ایکسپورٹ کی اور پھر امپورٹ کی جبکہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔

ایک دو سال چھوڑ کر پہلے چینی بہت برآمد ہوتی رہی اور پھر امپورٹ بھی ہوئی، برسات کے مینڈک کی طرح ایک خاص وقت آتا ہے جب چینی کا ایشو اٹھایا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ میں وزرا، چاروں صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے اور اسٹیک ہولڈرز بھی ہوتے ہیں، بتدریج چینی برآمد کرنے کی اجازت دی۔

جب شروع میں برآمد کی درخواست آئی تو اس وقت 750 ڈالر ٹن عالمی منڈی میں قیمت تھی، جب برآمد کی اجازت دی اس وقت دو روپے فی کلو اضافے کے ساتھ 140روپے فی کلو ایکس مل قیمت مقرر کرنے پر اتفاق ہوا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ عموما ایکس ملز اور پرچون قیمت میں آٹھ سے دس روپے فی کلو کا فرق ہوتا ہے، برآمد کے بعد چینی کی قیمت ملک میں کریش کر گئی تھی اور چینی کی قیمت کم ہوکر 119روپے پر آگئی تھی، ہم نے پانچ لاکھ ٹن بفر اسٹاک رکھا مگر شوگر ملز مالکان کا کہنا تھا کہ حکومت خرید کر رکھے ہم نے بینکوں سے قرضے لئے ہوئے ہیں۔

رانا تنویر نے کہا کہ رمضان المبارک میں بھی چینی 130روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت ہوتی رہی ہے، اس کے بعد گنے کی کاشت کا رقبہ بڑھ گیا توقع تھی کہ اس سال سات ملین میٹرک ٹن گنے کی پیداوار ہوگی، مگر جو موسمیات تبدیلی کے اثرات آئے تو اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں فصلیں متاثر ہوئی ان اثرات سے پاکستان میں بھی چینی کی پیداوار کم ہوئی اور رقبہ بڑھنے کے باوجود پیداوار کم ہوئی ہمیں جیسے معلوم ہوا تو وزیراعظم نے چینی کی باقی برآمد روک دی اور چالیس ہزار ٹن چینی برآمد نہیں کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری اس سال چینی کی پیداوار 63 لاکھ میٹرک ٹن رہی جو کہ ہماری ضرورت کیلئے کافی ہے۔

اس سال گنے کی قیمت ساڑھے چار ہزار روپے سے ساڑھے ہزار روپے فی ٹن کسان کو ملی ہے، ہولڈرز اور ڈیلرز کی وجہ سے قیمت بڑھی ہے اب اس پر سخت کارروائی کی جارہی ہے، اس وقت 173روپے کے حساب سے چینی فروخت ہورہی ہے بعض جگہ 172روپے بھی فروخت ہورہی ہے۔وزیر صنعت و پیداوار نے کہا کہ بھارت میں آج صبح چینی کی قیمت ڈیڑھ سو روپے فی کلو ہے، بنگلہ دیش میں 187روپے، افغانستان میں 173، ایران میں اڑھائی سو روپے جبکہ پاکستان میں 173روپے کلو گرام ہے۔

گزشتہ سال جب چینی ایکسپورٹ کی بات ہوئی تواس وقت سات لاکھ میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کا فیصلہ ہوا، ہماری ضرورت 65 لاکھ میٹرک ٹن تھی جبکہ اسٹاک ساڑھے 13 لاکھ میٹرک ٹن زائد تھا، اس وقت ساڑھے چار لاکھ ایک ٹرک کا ریٹ تھا، وزیراعظم ایکسپورٹ کی اجازت نہیں دے رہے تھے، اس وقت 138 روپے فی کلو چینی تھی ہمیں کہا گیا اس میں کسی کو منافع نہیں ہے ہم نے 145 روپے چینی کی قیمت مقرر کی۔