شوگر ملز کی جانب سے15ارب کے قرضے واپس نہ کرنیکاانکشاف

اسلام آباد:شوگر ملز کی جانب سے 15 ارب روپے سے زائد کے قرضے واپس نہ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی صدارت میں ہوا جس میں فنانس ڈویژن سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں نیشنل بینک کی جانب سے 190 ارب روپے کی ریکوریاں نہ کرنے سے متعلق آڈٹ اعتراض پر بحث کی گئی۔ سیکرٹری خزانہ نے بریفنگ میں بتایا کہ ریکوری کی کوششیں کی جارہی ہیں،28.7 ارب روپے ریکور ہوئے ہیں۔

جنید اکبر نے استفسار کیا کہ قرضہ لیتے ہیں تو کوئی چیز گروی نہیں رکھتے؟ ، جس پر نیشنل بینک کے صدر نے بتایا کہ بالکل رکھتے ہیں۔ 10 ہزار 400 کیس ریکوری کے پینڈنگ ہیں۔ جس پر کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

کمیٹی میں بریفنگ کے دوران آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ نیشنل بینک انتظامیہ نے شوگر ملز کو 15.2 ارب روپے کے قرضے جاری کیے جو شوگر ملز واپس کرنے میں ناکام رہیں، جس پر نیشنل بینک کے صدر نے بتایا کہ 25 قرضے ہیں۔ ایک قرضہ مکمل ایڈجسٹ ہو چکا ہے اور 3 ری اسٹرکچر ہو گئے ہیں۔

17 قرضے ریکوری میں ہیں۔ کمیٹی نے ریکوری کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ آئندہ کے لیے موخر کردیا۔ علاوہ ازیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا عشائیہ ڈیڑھ لاکھ سے بڑھا کر 4 لاکھ کرنے کا انکشاف ہوا۔

ندیم عباس نے کہا کہ بورڈ کے پاس اپنی مراعات بڑھانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، جس پر سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ اس کیس میں ایسے کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی منظوری پہلے وزارت خزانہ سے کی جائے۔ نوید قمر نے کہا کہ ہم نے بینک کو وزارت خزانہ سے نکالا ہے، واپس نہ دھکیلا جائے۔ جنید اکبر نے کہا کہ آئندہ بورڈ میں وزارت خزانہ کے نمائندے کی شرکت یقینی بنائی جائے۔

پبلک اکائونٹس کمیٹی نے ملک میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کارٹلائزیشن پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شوگر ملز مالکا ن کی تفصیلات طلب کر لیں،ارکان کمیٹی نے کہاکہ پہلے چینی برآمد کرکے شوگر ملز مالکان کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا گیااور اب درآمد کی آڑ میں اربوں روپے کمائے جارہے ہیں۔

پی اے سی کو سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکورٹی نے بتایاکہ گزشتہ برس ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی تھی اور اس سال پانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا تھا مگر اب تین لاکھ میٹرک ٹن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

چیئرمین پی اے سی نے کہاکہ ملک میں ہر فیصلہ آئی ایم ایف کی خوشنودی کیلئے کیا جاتا ہے۔انہوں نے استفسار کیا کہ کیا چینی پیدا کرنے والے سرمایہ داروں کو تحفظ دینے کی اجازت بھی آئی ایم ایف سے لی ہے کمیٹی کو سیکرٹری فوڈ سیکورٹی نے بتایا کہ رواں برس چینی کی پیداوار 58 لاکھ میٹرک ٹن ہوئی جو کھپت کے برابر ہے۔

چیئرمین پی اے سی نے استفسار کیا کہ پہلے چینی برآمد اور بعد میں درآمد کرنے کا فیصلہ کس کا تھا جس پر سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکورٹی نے بتایا کہ یہ فیصلہ وفاقی وزیر کا فیصلہ تھا جس کی منظوری کابینہ نے دی۔انہوں نے بتایا کہ اسوقت ملک بھر میں چینی کی ریٹیل پرائس 183 روپے ہے۔

رکن کمیٹی سید نوید قمر نے کہاکہ حکومت کو چینی کی قیمتوں میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے حکومت کو چاہیے کہ کارٹلز کو قابو کرے۔انہوں نے کہاکہ مسابقتی کمیشن کیا کر رہا ہے ملک میں چینی اور کھاد کے سب سے بڑے کارٹلز ہیں اور حکومتی مداخلت سے کارٹلز کو فائدہ ہوتا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پنجاب میں چینی کی ریٹیل پرائس 177، سندھ میں 180، کے پی کے میں 185 اور بلوچستان میں 183 فی کلو ہے۔رکن کمیٹی معین پیرزاد ہ نے کہاکہ شوگر مافیا صوبائی حکومتوں کے بس میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ کیا مراد علی شاہ یا مریم نواز کے اختیار میں ہے کہ اس مافیا کے خلاف کارروائی کرے انہوں نے کہاکہ شوگر ایڈوائزری بورڈ میں تمام مال بیچنے والے موجود ہیںمگر صارفین کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ سیکرٹری وزارت نے بتایا کہ سیزن کے آغاز میں 1.3 ملین ٹن چینی کا ذخیرہ موجود تھا اور چینی برآمد کرنے کی اجازت کاشتکاروں کو تحفظ دینے کیلئے دی گئی تھی۔

کمیٹی ارکان نے سیکرٹری فوڈ سیکورٹی کے ریمارکس پر تشویش کا اظہار کیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ چند شوگر ملز مالکان کو ارب پتی بنانے کیلئے پہلے برآمد کی اجازت دی گئی تھی اور اب درآمد کی اجازت دی جارہی ہے ۔

اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نے شوگر ملز مالکان کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہاکہ کمیٹی کوبتایا جائے کس نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی اور کن کن ملک کو چینی برآمد کی گئی تھی کمیٹی نے معاملے کو ایک ہفتے کیلئے موخر کردیا۔