ہمارے نظام میں ایک بنیادی خرابی درآئی ہے’ ہم کسی خاص مقصد کے لیے ایک ادارہ قائم کرتے ہیں’ پھر اُس کی استعداد میں اضافے کے بجائے اُسی مقصد کے لیے دوسرا اور تیسرا ادارہ قائم کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مصارف بڑھتے چلے جاتے ہیں’ ذمہ داری تقسیم ہوتی چلی جاتی ہے اور نظام میں مرکزیت نہ ہونے کے سبب جواب دہی مشکل ہو جاتی ہے۔ ہم کسی ادارے کو مستحکم کرنے کے بجائے ردّے پہ ردّا رکھتے چلے جاتے ہیں’ مثلاً: انسدادِ بدعنوانی کے لیے ہمارے ہاں ایک ”محکمہ انسدادِ بدعنوانی” دوسرا وفاقی تحقیقاتی ادارہ (FIA) اور تیسرا ‘ادارۂ قومی احتساب (NAB)’ ہے۔ الغرض اداروں پہ ادارے بنتے چلے جا رہے ہیں اور اسی تناسب سے بدعنوانی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ جب رشوت کی رقم کے حصے دار زیادہ ہوں گے تو اس کی شرح بھی بڑھتی چلی جائے گی۔
اس لیے بعض حضرات نے ”محکمۂ انسدادِ رشوت ستانی” کا نام ”محکمۂ امدادِ رشوت ستانی” رکھا ہے۔ مزید یہ کہ اداروں کے قیام میں اصلاح اور نیک نیتی کے بجائے بدنیتی کارفرما ہوتی ہے۔ مثلاً: سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ‘ادارۂ قومی احتساب’ اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ سیاستدانوں کی فائلیں مرتب کی جائیں اور انہیں ڈرا دھمکا کر ‘مسلم لیگ (ق)’ کے اصطبل میں لاکر باندھا جائے۔ اس کا بنیادی مقصد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا خاتمہ اور ان کی مشکیں کسنا تھا’ سو بقولِ غالب روزِ اوّل سے ‘مری تعمیر میں مضمَر ہے اک صورت خرابی کی’ کا مصداق تھا۔ پس چونکہ ‘ادارۂ قومی احتساب’ اپنے سیاسی مخالفین کو زِچ کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، اس لیے ہر دور کے اہلِ اقتدار کو یہ اچھا لگتا ہے اورحزبِ اختلاف کو یہ قاتل کے ہاتھ میں تلوار کے مترادف محسوس ہوتا ہے۔ آج تک یہ اعداد وشمار سامنے نہیں آئے کہ اس ادارے کے قیام سے اب تک اس پر قومی خزانے سے خرچ کتنا ہوا اور قومی خزانے کو فائدہ کتنا ہوا۔
اسی طرح ہمارے سلامتی کے اداروں کا مسئلہ ہے’ ایک ادارہ رینجرز کا ہے’ سمندر کے ساحلوں پر سمگلنگ اور غیر قانونی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے ‘کوسٹ گارڈ’ کا ادارہ ہے۔ انسدادِ منشیات کے لیے ‘اینٹی نارکوٹکس فورس’ ہے’ داخلی سلامتی کیلئے پولس ہے لیکن رینجرز کا استعمال بھی ہو رہا ہے۔ بلوچستان اور سرحد میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کا ادارہ ہے’نیز بلوچستان میں ایک ادارہ ‘لیوی’ کا کام کر رہا ہے اور وہ ضلعی انتظامیہ اور مقامی سرداروں کے اشتراک سے چل رہا ہے۔ پولس میں انسدادِ دہشت گردی کیلئے ایک ‘محکمہ انسدادِ دہشت گردی’ہے’ اب پنجاب میں جرائم کے سدِّباب کے لیے نیا ادارہ ‘سی سی ڈی’ قائم کیا گیا ہے۔ الغرض جس رفتار سے ادارے بڑھ رہے ہیں’ ردّے پہ ردّا لگ رہا ہے’ اُس سے زیادہ تیز رفتاری سے جرائم بڑھ رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں کچے کے علاقے کے ڈاکوئوں کو آج تک کنٹرول نہیں کیا جا سکا کیونکہ کہا جاتا ہے: اُن کے پشتیبان بھی بااثر لوگ ہوتے ہیں اور اغوا برائے تاوان کی کمائی میں اُن کا حصہ ہوتا ہے’ کوئی بعید نہیں کہ ضلعی انتظامیہ بھی اس میں ملوث ہو۔ اب فرنٹیئر کانسٹیبلری کو فیڈرل کانسٹیبلری میں تبدیل کرکے اُس کا دائرۂ کار چاروں صوبوں’ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان تک پھیلا دیا گیا ہے۔ اب ہم منتظر ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
اب پنجاب حکومت نے قوانین اور ضوابط کے نفاذ کی نگرانی کے لیے ایک نیا ادارہ Authority & Regulatory Enforcement Punjab (PERA) قائم کیا ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے مرکزی دفتر اور ذیلی دفاتر قائم ہوں گے’ ہر سطح پر عملے کا تقرر ہو گا’ اُن کے لیے ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولتوں اور مراعات کا انتظام ہو گا اور یوں انتظامی مصارف بڑھتے چلے جائیں گے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے حکمرانی کا ایک نیا طریق وضع کیا ہے کہ ہر جگہ وزیراعلیٰ نے پہنچنا ہے اور ہرجگہ ان کو نظر آنا چاہیے۔ دنیا میں کامیاب ترین حکمرانی کا یہ کلچر کہیں بھی نہیں ہے۔ کامیاب اور اعلیٰ معیار کی حکمرانی یہ ہے کہ حاکمِ اعلیٰ اپنے صدر مقام پر بیٹھا ہو اور پورا صوبہ اس کی نظروں میں ہو۔ آج کل یہ سہولتیں آن لائن حاصل ہیں۔ صوبہ پنجاب رحیم یارخان سے اٹک تک اور واہگہ سے ڈیرہ غازی خان’ راجن پور اور تونسہ تک ہے’ صرف لاہور میں کارکردگی دکھانے سے پورے پنجاب پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑے گا جبکہ ایک وقت تھا لاہور پر مسلم لیگ (ن) کا اجارہ تھا’ مگر اب پی ٹی آئی نے اس کے حلقۂ اثر میں کافی نفوذ کر لیا ہے’ شگاف ڈال دیے ہیں۔
خود لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے جو رہنما منتخب ہوئے ہیں ان پر بھی فارم 47 کی پھبتی کسی جا رہی ہے۔ لہٰذا پورے صوبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ آئے دن بعض منصوبوں کی نقاب کشائی کرتی رہتی ہیں’ مثلاً: غریب خواتین کی شادی کے لیے دھی رانی پروگرام’ لیپ ٹاپ پروگرام’ مریم نواز ہیلتھ کلینکس اور معذورین کے لیے ادارہ وغیرہ۔ یہ وہ منصوبے ہیں جن کا فیض محدود آبادی تک پہنچتا ہے’ حکمرانوں کو ایسے منصوبے بنانے چاہئیں جن کا فیض بتدریج صوبے کی پوری آبادی تک پہنچے کیونکہ آپ کو ووٹ مانگنے کے لیے صوبے کے کونے کونے تک جانا ہوتا ہے۔ وہاں لاہور کے ترقیاتی منصوبوں سے احساسِ محرومی تو پیدا ہوتا ہے’ لوگوں میں احساسِ قبولیت نہیں پیدا ہوتا۔
صوبے کی وزیراعلیٰ کا آئے دن ٹی وی سکرین پر نئے منصوبوں کی نقاب کشائی کرتے ہوئے نظر آنا اور ہر وقت منظر پر رہنا مقبولیت کو متاثر کرتا ہے۔ ماضی میں جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم انتہائی بااختیار وزیراعظم تھے’ اس وقت صرف پی ٹی وی تھا اور لوگ ہر وقت سکرین پر ان کا دیدار کرتے رہتے تھے’ اس سے لوگوں کے مزاج میں اکتاہٹ اور ایک درجے کا تنفّر پیدا ہو جاتا تھا۔ اس دور کا ایک لطیفہ ہے: ایک شخص ٹی وی میکینک کی دکان پر گیا اور کہا :میرے ٹی وی میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی ہے’ اس کو درست کر دیجیے”۔ ٹی وی میکینک نے ہر طرف سے ٹی وی کا معائنہ کیا اور کہا :یہ بالکل درست ہے اور بہترین کام کر رہا ہے”۔ اس شخص نے کہا: نہیں! اس میں ایک لاعلاج خرابی پیدا ہوگئی ہے”۔ میکینک نے اس سے پوچھا: وہ کیا؟ اس نے جواب دیا:اس کی سکرین میں بھٹو صاحب پھنس گئے ہیں”۔
لہٰذا حاکمِ اعلیٰ کی ضرورت سے زیادہ نمود ونمائش بھی مقبولیت کو متاثر کرتی ہے۔ لوگ ایک ہی تصویر دیکھتے دیکھتے اکتا جاتے ہیں’ اس لیے ہر معاملے میں توازن کی از حد ضرورت ہے۔ یہ مشورہ بااختیار لوگوں کو پسند نہیں آئے گا لیکن یہی ان کے حق میں مفید ہے۔ہماری رائے میں ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ ایک جامع ادارہ قائم کیا جائے’ جو ایک اتھارٹی کے نیچے کام کرے اور اُس کے نیچے ذیلی شعبے ہوں’ ان میں باہمی ربط ہو’ ایک حکمتِ عملی کے تحت کام کریں اور مثبت نتائج برآمد کریں۔ بعض اوقات دو مختلف ادارے ایک ہی معاملے کی تحقیق میں اپنی توانائیاں صَرف کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں انٹیلی جنس کے متعدد ادارے ہیں: آئی ایس آئی’ ایم آئی’ آئی بی اور سی آئی اے۔اس کے نتیجے میں سارے مالی وسائل انتظامی مشینری پر خرچ ہو جاتے ہیں اور جو نتائج مطلوب ہیں’ وہ حاصل نہیں ہوتے۔ اسی طرح ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کا ادارہ اور پورا نظام الگ سے قائم ہے۔ وفاقی وزارتِ داخلہ کے تحت ‘نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی’ بنائی گئی ہے’ اُس کیلئے افسرانِ والا شان’ دفاتر’ عملہ اور بجٹ تو مقرر کر دیا گیا لیکن اس ادارے نے اپنے قیام سے لے کر آج تک دہشت گردی کو روکنے کیلئے کون سے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں’ ہمارے علم میں نہیں ہیں۔ اس کے برعکس نائن الیون کے بعد امریکا نے داخلی سلامتی کے تمام اداروں میں مرکزیت قائم کرنے کے لیے انہیں ایک چھتری کے نیچے لاکر اُسے ”ہوم لینڈ سکیورٹی” کا نام دیا ہے۔ (جاری ہے)