خیبر پختونخوا میں32 ارب روپے کے ایک اورمالی ا سکینڈل کا انکشاف

خیبر پختونخوا میں ایک اور بڑے مالی اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے۔ نجی ٹی وی کو موصول سرکاری دستاویزات کے مطابق کے پی سٹیز امپروومنٹ پروجیکٹ میں مبینہ طور پر 32 ارب روپے کی بیضابطگیاں ہوئی ہے۔

دستاویزات کے مطابق منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بینک، ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اور کے پی حکومت کے اشتراک سے مالی اعانت یافتہ ہے، منصوبے کا مقصد پشاور، ایبٹ آباد، کوہاٹ، مردان اور مینگورہ میں شہری انفراسٹرکچر اور میونسپل خدمات کو بہتر بنانا ہے، جوائنٹ وینچر غیر رجسٹرڈ ترک کمپنی کو کے پی سی آئی پی کے تحت ٹھیکا دیا گیا ، کمپنی بولی کے وقت ایف بی آر، کے پی ریونیو اتھارٹی اور نہ ہی پاکستان انجینئرنگ کونسل میں رجسٹرڈ تھی۔

دستاویزات کے مطابق بہت کم ترقی کے باوجود 32 ارب روپے انہیں جاری کیے گئے اور جھوٹی پیشرفت رپورٹیں بناکر ناقص نگرانی، عملے اور مشیروں کی ملی بھگت سے یہ ادائیگیاں کی گئیں۔ دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی کمپنی نے مبینہ طور پر ٹیکس چوری کی، آمدنی ٹیکس، سیلز ٹیکس یا ودہولڈنگ ٹیکس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، قومی خزانے کو بھاری رقوم کا نقصان پہنچایا گیا۔

اْدھر ایم پی اے سجاد اللہ، محمد ریاض، آزاد رکن تاج محمد، منیر حسین لغمانی اور پی ٹی آئی کے محمد عارف نے چیئرمین پی اے سی کو ٹھیکوں میں خلاف ورزی، انجینئرنگ اور ٹیکس قوانین کی عدم پیروی، مبینہ کرپشن سے متعلق خط میں شکایات کی۔ارکان نے اسپیکر کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ غیر رجسٹرڈ کمپنی کو بولی میں شامل کرکے بڑے معاہدے حاصل کیے گئے اور غیر قانونی طور پر کمپنی کو غیر معمولی مالی فائدہ پہنچایا گیا ہے۔

ارکان اسمبلی نے غیر قانونی ادائیگیوں کی باضابطہ انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کے پی سی آئی پی، مقامی حکومت کے محکمے اور منصوبے کے مشیروں کے متعلقہ حکام کو طلب کرنے کا مطالبہ کیا۔ خط میں معاملہ نیب، ایف بی آر اور دیگر اداروں کو بھیجنے اورمبینہ جعلی یا نامکمل دستاویزات کی بنیاد پر ادائیگیاں منظور کرنے والے تمام ذمہ دار افسران کو جوابدہ ٹھہرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔