190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں سابق چیئرمین اسیٹ ریکوری یونٹ اورسابقہ مشیر خاص برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر کا مرکزی کردار ثابت ہوگیا۔رپورٹ کے مطابق ذرائع نے کہا کہ شہزاد اکبر پر الزام ہے کہ اس نے ایک غیر قانونی سکیم کا ماسٹر مائنڈ بن کر پاکستان کو مالی نقصان پہنچایا۔
تحقیقات کے مطابق مرزا شہزاد اکبر نے 6 نومبر 2019ء کو رازداری کے معاہدےDeed of Confidentiality) پر دستخط کیے۔ذرائع کے مطابق 190 ملین پاؤنڈ کی رقم نجی ہاؤسنگ سوسائٹی، کراچی کے ذمہ داری اکاؤنٹ سے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام “نامزد اکاؤنٹ” میں منتقل کی گئی، معاہدے میں شریک ملزم ضیاء المصطفیٰ نسیم نے بھی دستخط کیے اور اس رقم کو اسٹیٹ آف پاکستان کا اکاؤنٹ ظاہر کیا گیا۔
مخصوص اکاؤنٹ کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا اکاؤنٹ ظاہر کر کے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام کر دیا، ریکارڈ کے مطابق مرزا شہزاد اکبر نے 4 سے 8 فروری اور 22 سے 26 مئی 2019ء تک برطانیہ کے دورے کیے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دوروں میں شہزاد اکبر نے برطانوی ہوم سیکرٹری اور نیشنل کرائم ایجنسی کے ڈی جی سے سول ریکوری اور حوالگی کے معاملات پر بات چیت کی، فروری اور مئی 2019 ء میں شہزاد اکبر نے برطانیہ کے دوروں میں این سی اے حکام سے ملاقاتیں کر کے فنڈز واپسی کا خفیہ روڈ میپ تیار کیا۔
شہزاد اکبر نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایف بی آر، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک نمائندوں کو رقم کی واپسی کے معاملے میں شامل نہیں کیا، شہزاد اکبر کی بدنیتی کے باعث سپریم کورٹ آف پاکستان کو شدید مالی نقصان پہنچا، شہزاد اکبر کی اس بدنیتی کی وجہ سے 190 ملین پاؤنڈ( تقریباً 50 ارب پاکستانی روپے) ریاست کی بجائے( نجی ہاؤسنگ سوسائٹی )کو فائدہ دینے کیلئے استعمال ہوئے۔