امریکا کی ریاست ٹیکساس میں سیلابی ریلے سے تباہی ٹھیک اُس دن شروع ہوئی جب ملک میں یوم آزادی منایا جا رہا تھا اور اس قدرتی آفت کے نتیجے میں اب تک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 30 بچیاں بھی شامل ہیں۔
ایسے میں گواڈالوپے دریا توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جو اس سانحے کی مرکزی وجہ ہے اور جہاں اب تک درجنوں افراد لاپتہ ہیں۔ ایک جانب جہاں درجنوں خاندان اپنے پیاروں کو دفنانے کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ دوسرے لاپتہ افراد کی خبر کے انتظار میں ہیں، امریکا میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ سانحہ اتنی تیزی سے کیسے پیش آیا اور امریکا جیسے ملک میں اتنی زیادہ ہلاکتوں کی وجہ کیا ہے؟ اس بحث میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ ان کے ناقدین اور سیاسی مخالفین چند ایسے فیصلوں کی نشاندہی کرتے دکھائی دے رہے ہیں جو اُن کے خیال میں اس سانحے سے ہونے والی تباہی کی وجہ بنے۔
سیلاب کہاں آیا؟
’حتیم شریف‘ ٹیکساس یونیورسٹی میں سول انجینیئرنگ کے پروفیسر ہیں جن کے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں سیلاب سے سب سے زیادہ اموات ٹیکساس ریاست میں ہی ہوتی ہیں۔ 1959ء سے 2019ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد انھوں نے جانا کہ اس عرصے میں 1069 افراد ایسے ہی واقعات میں ہلاک ہوچکے ہیں اور ان میں سے بیشتر اموات اسی مقام پر پیش آئی ہیں۔ حتیم شریف کے مطابق جس دریا میں بہاو تیز ہونے کے سبب سیلاب آیا، اس جگہ کو ’فلیش فلڈ وادی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ہلال کی شکل کا زمین کا ٹکڑا ہے جو ڈیلاس سے ہوتا ہوا آسٹن اور سان انتونیو سے گزارتا ہوا میکسیکو کی سرحد کی جانب نکلتا ہے۔ اس وادی کی چند خصوصیات ایسی ہیں کہ یہاں سیلابی ریلے کثرت سے آتے ہیں۔ یہاں کی چٹانوں کی وجہ سے بارش کے بعد پانی بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور یہاں کی زمین بھی ایسی ہے کہ پانی زیادہ جذب نہیں کرتی، اسی لیے چھوٹی ندیوں میں بھی طغیانی آ جاتی ہے اور جب یہ چھوٹی چھوٹی ندیاں دریا میں ملتی ہیں تو پانی کا ایسا سیلاب آتا ہے جو راستے میں مکان، گاڑیوں اور انسانوں تک کو اپنے ساتھ بہا کر لے جا سکتا ہے۔
اس خطے کا جغرافیہ یہاں زیادہ بارش کی وجہ بنتا ہے۔ ٹیکساس کے اس علاقے میں جیولوجیکل فالٹ کی وجہ سے پہاڑی چوٹیاں موجود ہیں اور جب خلیج میکسیکو سے گرم ہوا یہاں سے گزرتی ہے تو شدید بارش ہوتی ہے جس سے ندیاں اور دریا بھر آتے ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے سے ہوا میں نمی بڑھتی ہے اور بارشوں اور سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے موسم گرما میں ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ جمعرات اور جمعے کے بیچ ماہرین کے مطابق یہاں ہونے والی بارش کئی ماہ کے برابر تھی۔ صرف 45 منٹ میں دریا میں پانی کے بہاو¿ میں آٹھ میٹر تک کا اضافہ ہوا، لیکن یہاں سیلاب کا آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ بیسویں صدی میں تقریباً ہر دہائی میں یہاں کم ازکم ایک بار سیلاب ضرور آیا ہے۔
کیا سیلاب کی اطلاع دیر سے دی گئی؟
ایک اور سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ پیشگی اطلاع دینے والا نظام کیوں ناکام ہوا اور کیا مقامی لوگوں کو وقت سے پہلے نقل مکانی کی تنبیہ کی گئی تھی یا نہیں؟بدھ کے دن ٹیکساس ڈوِژن برائے ہنگامی انتظامات نے مغربی اور وسطی ریاست میں سیلاب کے خطرے کے پیش نظر ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا تھا۔جمعرات کو ملک کی قومی موسمیاتی سروس نے بھی سیلاب کے بارے میں تنبیہ جاری کر دی تھی جبکہ جمعے کے دن کیئر کاوئنٹی میں سیلاب کا الرٹ جاری ہوا۔ اس کے باوجود کیا غلط ہوا؟ ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے اس سانحے کا ذمہ دار قدرتی آفت کو قرار دیا کہ ’کسی کو بھی یہ توقع نہیں تھی کو پانی کی نومیٹر بلند دیوار سامنے آجائے گی۔‘
دوسری جانب ڈائریکٹر نم کڈ نے اعتراف کیا کہ تمام مکینوں کو شاید وہ پیغامات نہیں مل پائے جن میں خبردار کیا گیا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ایسے علاقے بھی ہیں جہاں سگنل نہیں آتے اور کسی کو ایک پیغام بھی نہیں مل سکا ہوگا۔‘ کیئر کاوئنٹی جہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی، کے جج روب کیلی نے کہا کہ ان کے علاقے میں سیلابی انتباہی نظام موجود نہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ نظام مہنگا ہونے کی وجہ سے لگایا ہی نہیں گیا تھا۔‘
ٹرمپ حکومت کی کٹوتیاں جانوں کے ضیاع کی وجہ؟
گوڈالوپے دریا میں طغیانی کے بعد لاپتہ ہونے والے 40 افراد کی تلاش جاری ہے لیکن اسی دوران امریکی میڈیا نے سابق صدر ڈونلڈٹرمپ کی حکومت کے دوران کیے گئے بجٹ اور عملے میں کٹوتیوں کے اس سانحے پر ممکنہ اثرات پر سوال اٹھانا شروع کردیے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ ٹیکساس میں نیشنل ویدر سروس (این ڈبلیو ایس) کے کئی دفاتر میں ماہرِ موسمیات اور آبی ماہرین (ہائیڈرولوجسٹس) کی کمی تھی جو شدید موسم کی نگرانی اور بروقت وارننگ جاری کرنے کے لیے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔
این ڈبلیو ایس ملازمین کی تنظیم کے ڈائریکٹر ٹام فیہی کے مطابق ٹرمپ کے دوبارہ وائٹ ہاوس آنے کے بعد جنوری سے اب تک ٹیکساس کے کم از کم دو دفاتر میں خالی آسامیوں کی تعداد دوگنی ہو چکی ہے۔ این ڈبلیو ایس کے سابق ڈائریکٹر برائے قانون سازی جان سوکچ نے نیویارک ٹائمز کو بتایا ’عملے میں کمی انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالتی ہے۔‘ انھوں نے وضاحت کی کہ عملے کی کمی کی وجہ سے کسی ہنگامی صورت حال میں مقامی حکام کے ساتھ موثر رابطہ ممکن نہیں رہتا۔
حکومت نے البتہ ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ محکمہ تجارت جو موسم سے متعلق ایجنسی کی نگرانی کرتا ہے کا کہنا ہے: ’ٹیکساس کے لیے ہفتے کے آخر میں جاری کی گئی بروقت اور درست پیشگوئیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ این ڈبلیو ایس اب بھی اپنی اہم ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہی ہے۔‘تاہم حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ حکومت کے تحت این ڈبلیو ایس سمیت کئی وفاقی اداروں کو عملے میں کمی کرنا پڑی۔نیویارک ٹائمز کے مطابق گزشتہ بہار تک محکمہ موسمیات اپنے 4000 میں سے تقریباً 600 ملازمین سے محروم ہوچکا تھا، جنھیں یا تو ریٹائر کردیا گیا یا پھر ایلون مسک کی زیرِ قیادت ’ڈیپارٹمنٹ آف ایفیشنسی‘ کے تحت چھانٹیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
سیلاب متاثرین کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
گزشتہ ہفتے کے اختتام سے جاری طوفانی بارشوں نے وسطی ٹیکساس کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اب تک کم از کم 81 افراد کی جانیں جاچکی ہیں۔ میڈیا کی توجہ خاص طور پر کیر کاونٹی پر مرکوز ہے جہاں واقع ’مسٹک کرسچن کیمپ‘ سیلابی ریلے کی زد میں آ کر تباہ ہوگیا۔ یہ کیمپ 1930ء کی دہائی سے ایک ہی خاندان چلا رہا تھا جو اسے ایک ایسا پُرسکون مقام قرار دیتا تھا جہاں کم عمر لڑکیاں ’روحانی، ذہنی اور اخلاقی نشوونما‘ کرسکیں۔ لیکن یہ جگہ چند لمحوں میں قیامت کا منظر بن گئی۔ اسی مرکز میں کم از کم 27 لڑکیاں اور نوعمر طالبات ہلاک ہوچکی ہیں جبکہ 10 مزید لاپتہ ہیں۔ ابتدائی تحقیقات اور عینی شاہدین کے مطابق سیلاب نے جب کیمپ کو اپنی لپیٹ میں لیا تو لڑکیاں اور ان کی کونسلر گہری نیند میں تھیں۔
13 سالہ سٹیلا تھامسن نے این بی سی کو بتایا ’ہم سب گھبرا گئے تھے اور مسلسل دعائیں کررہے تھے۔‘ سٹیلا کی جان بچ گئی کیونکہ ان کا کیبن بلند جگہ پر واقع تھا لیکن ان کی ساتھی اتنی خوش نصیب نہ تھیں۔ ان میں آٹھ سالہ رینی اسماجسٹرلا بھی شامل تھی جس کی لاش بعد میں ملی۔ اس کے چچا شون سالٹا نے فیس بک پر لکھا: ’اگرچہ نتیجہ وہ نہیں نکلا جس کی ہم امید کررہے تھے، مگر سوشل میڈیا پر تصاویر اور معلومات نے ریسکیو ٹیم کو جلد اس کی شناخت میں مدد دی۔‘ انھوں نے مزید لکھا ’ہم شکر گزار ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ تھی اور خوشگوار لمحے گزار رہی تھی، جیسا کہ اس تصویر سے ظاہر ہے جو گزشتہ روز لی گئی تھی۔‘
دیگر متاثرین میں 13 سالہ بلیئرہاربر اور 11 سالہ بروک ہاربر شامل تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں۔ ان کے والد آر جے ہاربر نے سی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بلیئر ایک غیرمعمولی طالبہ تھی جس کا دل بہت بڑا تھا جبکہ بروک ہر جگہ روشنی کی مانند تھی۔ لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے، وہ سب کو ہنسا دیتی اور پلوں کو خوشگوار بنا دیتی۔ ‘کیمپ کے ڈائریکٹر رچرڈ ’ڈک‘ ایسٹ لینڈ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں جبکہ ایک کونسلر تاحال لاپتہ ہیں۔ ۔کیمپ سے باہر بھی المناک کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ 27 سالہ جولیان رائن اپنی ماں اور بچوں کو بچاتے ہوئے جان کی بازی ہارگئے۔ رپورٹس کے مطابق انھوں نے ٹریلر کا شیشہ توڑ کر اہل خانہ کو باہر نکالا تاکہ وہ سیلاب سے بچ سکیں، لیکن اسی دوران وہ خود زخمی ہوگئے اور امداد پہنچنے سے قبل ہی خون بہہ جانے سے چل بسے۔ ان کی بہن کونی سالاس نے مقامی ٹی وی چینل کو بتایا ’وہ ایک ہیرو کے طور پر مرے اور یہ قربانی کبھی فراموش نہیں کی جائے گی۔‘
ابھی بھی کئی افراد لاپتہ ہیں اور مسلسل بارشوں کی وجہ سے اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ (بشکریہ: بی بی سی اُردو)
