ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد غزہ میں اسرائیلی جارحیت اب ایک نئے اور بھیانک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور صہیونی قابض نے مشق ستم میں مزید شدت پیدا کر دی ہے۔ گزشتہ صرف 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں 70 سے زائد نہتے فلسطینی شہید ہوگئے، جن میں اکثریت ان شہریوں کی تھی جو امدادی مراکز کے قریب موجود تھے۔ ان حملوں میں 51 افراد صرف امدادی مقامات کے آس پاس قتل کیے گئے، جو بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صرف غزہ کی صلاح الدین اسٹریٹ میں ایک حملے میں 25 فلسطینی شہید اور 140 سے زائد زخمی ہوئے، جن میں سے 62 کی حالت تشویشناک ہے۔ یہ مناظر خان یونس، الشفا اسپتال اور دیگر علاقوں میں ہر روز دہرائے جا رہے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اس مسلسل سفاکیت میں اب تک 56077 سے زائد فلسطینی شہید اور 131848 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں اور فلسطینیوں کے قتل عام کا یہ سلسلہ بغیر کسی توقف کے مسلسل جاری ہے۔
یہ اعداد و شمار پوری دنیا کے دیکھتے بھالتے ایک پوری انسانی آبادی کی اجتماعی تباہی کی المناک داستان سنا رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پوری دنیا اپنی آنکھوں کے سامنے غزہ میں انسانیت کو ظالم و جابر کے ہاتھوں ذبح ہوتی دیکھ رہی ہے، مگر سوائے مذمتی تماشوں کے کچھ بھی نہیں کر رہی۔ ایران اسرائیل بارہ روزہ جنگ سے پہلے یہ تاثر تھا کہ اسرائیل کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، کوئی بھی طاقت اس کا ہاتھ نہیں روک سکتی، مگر جنگِ بارہ روزہ نے اس خیال کو مکمل طور پر غلط ثابت کر دیا ہے اور اب واضح ہوگیا ہے کہ یہ محض بے حسی اور انسانیت کو بچانے کے فرض سے فرار کا بہانہ ہے۔ دنیا چاہے تو اسرائیل کا بازو مروڑ کر اس کے گلے میں ڈال سکتی ہے، مگر پوری دنیا نے انسانیت کو بچانے کیلئے کردار کی بجائے آنکھیں ماتھے پر رکھ کر بے حسی اور بے شرمی سے تماشا دیکھنے کو ہی ترجیح بنالیا ہے۔ نام نہاد مہذب دنیا کی اسی بدترین بے حسی، مفاد پرستی اور منافقت سے شہ پاکر اسرائیل پوری طاقت سے فلسطینیوں کے وجود کو ہی مٹانے کے درپے ہے اور امریکا کی مدد سے غزہ کی اس چھوٹی سی محصور پٹی میں آباد لاکھوں فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتارنے کی راہ پر گامزن ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بارہ دن کے اندر اندرامریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے ختم ہوگئی۔ اسرائیل ایران پر حملہ آور ہوا تو یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ایران نے ہتھیار نہ ڈالے تو جلد ہی اس کا انجام بھی غزہ جیسا ہوگا، مگر جنگ آگے بڑھی تو نہ صرف دنیا کا یہ خیال غلط ثابت ہوا بلکہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کو بھی جلد احساس ہوگیا کہ اس نے اس بار غلط جگہ ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اسرائیل پون صدی سے نہتے فلسطینیوں کو قتل و بے گھر کرکے ہی شیر بنا ہوا تھا۔ اس نے نہتے و بے بس فلسطینیوں کو ہی ہمیشہ مار کر اپنی دھاک بٹھائی ہوئی تھی۔ ایران سے پنگا لیا تو بارہ دن میں ہی نہ صرف اس کی غلط فہمی دور ہوگئی بلکہ پوری دنیا پر بھی آشکار ہوگیا کہ ایران جیسے باہمت اور درمیانی درجے کا طاقتور ملک بھی کھڑا ہوجائے تو اسرائیل کی ساری ناقابل تسخیر اور ماورائی طاقت تارِ عنکبوت سے زیادہ کچھ نہیں، چنانچہ ایران کے ہاتھوں اسرائیل کی مکمل تباہی نوشتہ دیوار دیکھ کر اسرائیل کے سرپرست ٹرمپ نے نہ صرف جنگ میں شمولیت اختیار کی بلکہ جلد مداخلت کرکے جنگ ہی رکوا دی، دوسری طرف بے بس و بے کس فلسطینی دو سال سے مارے جا رہے ہیں اور اسرائیل انہیں ایک ایک کرکے موت کے گھاٹ اتارے جا رہا ہے مگر دنیا کے تمام قوانین، ادارے اور طاقتور ممالک منہ موڑے کھڑے ہیں، جیسے اس قطعہ ارضی پر کوئی المیہ وجود نہ رکھتا ہو اور فلسطینیوں کے کوئی انسانی حقوق نہ ہوں اور وہ انسانیت کے دائرے سے ہی باہر ہوں۔ یہی عالمی سیاست کا وہ نفاق زدہ چہرہ ہے جو کمزور اور نہتے کے لئے ایک باٹ رکھتا ہے اور طاقتور کیلئے دوسرا اور اسی دوہرے معیار نے آج دنیا کو انسانیت کیلئے جہنم بنا کر رکھا ہوا ہے۔
یہ کیسی دنیا ہے کہ یہاں طاقتور کے مقابلے پر طاقتور میدان میں آئے تو جنگ بارہ دن سے زیادہ نہیں چلتی، لیکن جب سامنے فلسطینیوں کی طرح بے دست و پا اور نہتے ہوں، تو نہ صرف حملہ آور کی درندگی بڑھتی اور اس کی سفاکیت میں شدت آتی ہے بلکہ دنیا کی کوئی طاقت اس کا ہاتھ روکنے کی زحمت نہیں کرتی۔ یہ دہرا معیار ہی اصل مسئلہ ہے۔ دنیا لائیو دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس بے دردی اور بے رحمی سے فلسطینی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا قتل عام کر رہا ہے، مگر عالمی طاقتوں کی پیشانی پر شکن تک نہیں آتی، جبکہ کسی بڑے ملک یا اتحادی پر ہلکا سا حملہ ہو جائے تو پوری دنیا ہنگامی اجلاسوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا جو افسانہ گھڑا گیا تھا، وہ ایران نے زمین بوس کر دیا۔ اسرائیل کی سرزمین پر ہونے والے مہلک میزائل حملے، اس کی ایئر ڈیفنس کی ناکامی اور عالمی دباؤ پر جھکاؤ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کو نہ صرف روکا جا سکتا ہے بلکہ اس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جا سکتا ہے، چنانچہ یہ موقع ہے کہ غزہ کے معاملے کو بھی پوری شدت سے اٹھایا جائے۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی سمیت دنیا بھر کے دردمند اور باشعور افراد کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ اگر ایران و اسرائیل میں جنگ بندی کی بات ہو رہی ہے تو اس میں غزہ کے مظلوموں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ ایران اسرائیل کی جنگ بندی اب تک دستاویزی نہیں ہوئی۔ غیر رسمی اور زبانی کلامی اعلانات پر ہی دونوں فریق پیچھے ہٹے ہیں۔ یہ ایک اہم موقع ہے کہ اس جنگ بندی میں غزہ میں سیز فائر کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ایران کے جواب نے دنیا کو جنگ روکنے پر مجبور کر دیا تو آخر عالمی برادری اسرائیل کو غزہ میں درندگی سے روکنے کیلئے کیوں تیار نہیں؟ عالمی ادارے، اقوامِ متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ اور بڑی ریاستیں آج بھی محض بیانات سے آگے نہیں بڑھتیں تو کل جب نسل کشی کی تاریخ لکھی جائے گی، تو اس میں اسرائیل کے ساتھ ان اداروں اور ملکوں کا جرمِ خاموشی بھی درج ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ دوغلے عالمی معیار کو ترک کیا جائے، ورنہ غزہ یونہی سلگتا رہا تو خطے میں ایک بار پھر جنگ کی آگ بھڑک سکتی ہے اور دوبارہ جنگ پھیل گئی تو کوئی نہیں جانتا کہ اس کے نتائج کس قدر بھیانک ہوں گے۔