تلاش کا سفر جاری رہنا چاہیے۔ سیکھنے سکھانے کا عمل کبھی ختم نہیں ہونا چاہیے۔ یہی تعلیم ہمارا مذہب بھی دیتا ہے۔ مہد سے لحد تک علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ حکمت و دانائی کی باتیں مؤمن کی گمشدہ میراث ہیں، یہ جہاں سے ملے فوراً لے لو۔ دنیا میں دو قسم کی تکلیفیں ہوتی ہیں۔ ایک ہے سیکھنے سکھانے کی تکلیف۔ دوسری ہے جہالت اور پچھتاوے کی تکلیف۔ جو شخص پہلی قسم کی تکلیف برداشت کرلیتا ہے، اسے دوسری تکلیف سے نجات مل جاتی ہے۔ جس طرح جہاں میں مانگنے والوں کے سر اونچے نہیں ہوتے، اسی طرح جاہلوں کے سر بھی اونچے نہیں ہوسکتے۔ یہ اصول ہے جو قوم علم و تحقیق، جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے ہوگی۔ دنیا کی قیادت بھی وہی کرے گی۔ جب ہم مسلمان تحقیق و ریسرچ کیا کرتے تھے تو دنیا پر حکمرانی بھی کیا کرتے تھے۔ آج جو پستی کا شکار ہیں تو اس کی ایک وجہ علم و تحقیق سے دوری ہے۔ یاد کریں وہ وقت جب ہم مسلمان ہر میدان آگے ہوتے تھے۔ گھریلو زندگیوں سے لے کر سرکاری امور تک سب کام منظم ہوا کرتے تھے۔ بڑی سوچ تھی۔ ہم اپنا ”وژن” اور ”ہدف” رکھتے تھے۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کے منصوبے تھے، تعمیر و ترقی کے اعلیٰ نمونے تھے، بامقصد زندگی تھی، شاندار اہداف تھے، ہر میدان کے میرکارواں تھے۔
ایک طویل عرصہ دنیا پر حکمرانی کرتے رہے اور پھر رفتہ رفتہ ہم نے علم و تحقیق سے منہ موڑنا شروع کردیا۔ ہمیں عیش و عشرت کی لت لگ گئی۔ یہاں تک کہ ہم نے تحقیق و ریسرچ، علم و ہنر کا میدان خالی چھوڑ دیا۔ ہمارے عیاش اور نالائق حکمرانوں نے علوم و فنون اور جنگی مہارت اور جرأت و بہادری کو خیرباد کہہ دیا اور بتدریج پوری قوم لہو و لعب میں لگ گئی، ہم آپس میں ہی دست و گریبان ہوگئے۔ ہماری راتیں رنگین اور صبحیں 12بجے ہونے لگیں۔ ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست” ہمارا موٹو ہوگیا۔ جب ہمارا مقصدِ زندگی یہ ٹھہرا اور طرزِ زندگی عیاشانہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کے ہاتھوں میں ہماری تقدیر لکھ دی جو نہ ہمارے بچوں پر رحم کرتے تھے اور نہ ہمارے ضعیفوں کی عزت کرتے تھے۔ سلطنتِ عباسیہ، سلطنتِ عثمانیہ، سلطنتِ مغلیہ کے تاج داروں کے آخری لمحات پڑھ لیں رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ آنکھیں کھولنے کے لیے بہادر شاہ ظفر کا یہ مصرع ہی کافی ہے جو انہوں نے قید کے دوران کہا تھا
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
ربّ کائنات کا نظام تبدیل نہیں ہوتا، قدرت اللہ بدلا نہیں کرتی۔ اگر ہم دوبارہ دنیا میں سرفرازی اور عروج چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ وہی ہے جو ہم نے چھوڑا تھا، یعنی ہمیں علوم و فنون، جدید تعلیم و ٹیکنالوجی اور تحقیق و ریسرچ کے میدان میں آگے بڑھنا ہوگا۔ اپنی کھوئی ہوئی میراث کو دوبارہ حاصل کرنا ہوگا۔ علم کو اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا۔ ”لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو” کا عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا۔ سبق پھر صداقت کا، شجاعت کا، عدالت کا پڑھنا ہوگا، تاکہ دنیا کی قیادت کا کام لیا جا سکے اور اس کا آغاز اپنے آپ سے کرنا ہوگا۔ خود کو، اپنے گھر کو، دفتر کو، معاشرے کوسب سے بڑھ کر اپنی ذہنیت کو تبدیل کرنا ہوگا۔ عیش و عشرت کو چھوڑ کر محنت شاقہ، جہد مسلسل، عمل پیہم کی تصویر بننا ہوگا۔ مقامِ شکر ہے کہ ہم مسلمان ایک مرتبہ پھر علم و تحقیق، تعمیر و ترقی، فلاح و نجات، نظم و ضبط اور اصول و قوانین کی طرف بڑھنے لگے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر بھی، قومی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی۔ ہر سطح پر، ہر میدان میں، ہر اعتبار سے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ اب یہ علم و تحقیق، تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود اور جستجو کا سفر رکنا نہیں چاہیے، بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی ہونا چاہیے۔ اپنی ذات، میلانات اور رجحانات کا جائزہ لیں۔ ایک ہدف طے کر کے اپنی منزل کی جانب گامزن ہوجائیں۔
یہ 1998ء کی بات ہے جب ہم اپنے ”مادر علمی” سے فارغ التحصیل ہوکر گھروں کو جانے لگے تو ہمارے جامعہ کے صدر صاحب نے آخری نصیحتیں کرتے ہوئے کہا تھا: ”آپ نے 8سالہ تعلیم کے دوران جو کچھ حاصل کیا ہے وہ صرف خزانے کی کنجی کی مانند ہے۔ تم یہ مت سمجھنا کہ اب ہم عالم بن گئے ہیں، مزید کچھ پڑھنے اور مطالعے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی مطالعہ کرنے کی استعداد پیدا ہوئی ہے۔ علمی خزانے کی کنجی آپ کے ہاتھ میں آئی ہے۔ اب علم و تحقیق کے گہرے سمندر میں غوطے لگاکر موتی نکالنا آپ کا کام ہے۔”
اس وقت صدر صاحب کی یہ بات ہماری عقل میں نہ آئی تھی۔ 8سال تک 16مختلف قسم کے علوم و فنون پڑھنے کے بعد ہم اپنے آپ کو بڑا عالم، فاضل، مذہبی راہنما اور دانشور سمجھ رہے تھے۔ ہمارے ذہنوں میں یہ بھوت سوار ہو چکا تھا کہ ہم نے بہت علم حاصل کرلیا ہے۔ ہر موضوع پر بہت کچھ پڑھ لیا ہے۔ مزید پڑھنے اور مطالعہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، لیکن جب ہم نے علمی میدان میں قدم رکھا، پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا، تحقیق و ریسرچ کے شعبے سے واسطہ پڑا تو پھر ہمیں صدرصاحب کی وہ آخری بات سمجھ آئی کہ واقعتا ابھی تو پڑھنے کا کچھ نہ کچھ اور تھوڑا سا طریقہ اور سلیقہ آیا ہے۔ صرف خزانے کی چابی ہاتھ آئی ہے۔ خزانہ نکالنے کا مشکل کام کرنا ابھی باقی ہے، چنانچہ وہ جو ہمارے دماغ پر ”سب کچھ جاننے” کا بھوت سوار ہوا تھا، بتدریج اترتا چلا گیا۔ جیسے جیسے ہمارا مطالعہ بڑھتا چلاگیا، ویسے ویسے ہم یہ سمجھنے لگے کہ ہمیں کچھ نہیں آتا۔
یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اس وقت بھی ہمیں کچھ نہیں آتا۔ یہی سمجھ کر روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ ہر ہفتے مختلف اہل علم و فکر کی مجالس میں جاتے ہیں تاکہ علمی پیاس بجھائی جا سکے، ہر ماہ کوئی نہ کوئی کورس کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، تاکہ پتا چلے علم و تحقیق کے نئے نئے زاویے کیا کیا ہیں؟ علم حاصل کرنے اور سیکھنے کی غرض سے ہر سال دو سے چار سفر کرتے ہیں۔ روزانہ مطالعہ کرنے کا معمول اس کے سوا ہے۔ اس سب کے باوجود جب کسی ہم دانشور کا لیکچر سنتے ہیں، کوئی ورکشاپ اٹینڈ کرتے ہیں، کسی علمی موضوع پر سیمینار میں جانا ہوتا ہے، کوئی نئی کتاب پڑھنے کو ملتی ہے، کوئی نئی تحقیق اور ریسرچ سامنے آتی ہے تو احساس ہوتا ہے ہمیں توکچھ بھی نہیں آتا۔ ابھی بہت کچھ سیکھنے، پڑھنے اور حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تو علمی خزانے کی خوشبو سونگھی ہے۔ علم کی خوشبو میں ہی اتنا لطف اور اتنا مزا ہے کہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔