موجودہ امریکا سابق صدر جمی کارٹر کی نظر میں

آج سے دو عشرے قبل سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ”امریکا کا اخلاقی بحران” کے عنوان سے بدلتے ہوئے امریکا کی اس وقت کی صورتحال کا نقشہ کھینچا تھا جس کا خلاصہ ہم نے ستمبر 2006کے دوران اپنے کالم میں قسط وار پیش کیا تھا، آج کے ماحول میں اس پر ایک بار پھر نظر ڈالنے کی محسوس ہو رہی ہے تاکہ امریکا کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ جس ڈرامائی سیاست کا منظر دنیا کو مسلسل دکھائے جا رہے ہیں اسے اس تاریخی پس منظر کی روشنی میں بہتر طور پر سمجھا جا سکے:

سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی ایک کتاب اس وقت میرے زیرمطالعہ ہے جس کا انگریزی نام America’s Moral Crisis ہے اور جناب محمد احسن بٹ نے ”امریکا کا اخلاقی بحران” کے نام سے اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ پونے دو سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب ”دارالشعور، مزنگ روڈ، بک اسٹریٹ، لاہور” نے شائع کی ہے اور میرے نزدیک یہ کتاب جہاں باشعور امریکیوں کے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے وہاں اسے بش سینئر اور بش جونیئر کے دورِ صدارت میں امریکی پالیسیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے خلاف چارج شیٹ اور فردِ جرم کا درجہ بھی حاصل ہے۔ جمی کارٹر موجودہ امریکا کو قومی پالیسیوں اور حکومتی اقدامات کے حوالہ سے ماضی کے امریکا سے مختلف قرار دیتے ہیں اور کسی تامل کے بغیر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ امریکا اقوامِ عالم کی برادری میں اپنے امتیاز و اختصاص اور مقام و کردار سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جمی کارٹر کی عائد کردہ اس ”فردِ جرم” کی اہم باتوں سے قارئین کو بھی آگاہ کروں۔ جمی کارٹر لکھتے ہیں کہ

”انتہائی تنگ نظری پر مبنی مذہبی عقائد کو سیاسی پارٹیوں کا بے لچک ایجنڈا بنا لیا گیا ہے۔ حکومت کے اندر اور باہر موجود لابی کاروں (Lobbyists ) نے آزاد سوچ اور عمل کے قابل تحسین امریکی ایقان (Belief ) کو انتہائی دولتمند شہریوں کے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے اور ساری کی ساری دولت صرف اپنے وارثوں کو ہی منتقل کرنے کے حق میں بدل دیا ہے۔” (ص 19)

”ہمارا ملک بین الاقوامی تنظیموں کی حدود سے آزاد رہنے کا اعلان کر چکا ہے۔ نیز بہت سے پرانے عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کر چکا ہے، جن میں عدالتی فیصلے، ایٹمی اسلحہ کے حوالے سے کیے گئے معاہدے، حیاتیاتی (Biological ) ہتھیاروں پر کنٹرول کے معاہدے، ماحول کے تحفظ کے معاہدے، انصاف کا بین الاقوامی نظام اور قیدیوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کرنے کے معاہدات شامل ہیں۔” (ص 19)

”آج کل واشنگٹن کا منظر مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے اور تقریباً ہر معاملے پر سخت جانبدارانہ بنیادوں پر فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ کلیدی نوعیت کے قانون سازی کے فیصلوں پر عوامی مباحثہ کرانا اب قصہ ماضی بن چکا ہے۔ بنیادی معاہدے لابی کاروں اور قانون ساز لیڈروں کے مابین ہوتے ہیں، جن میں اکثر پارٹی کے بند کمروں کے اجلاسوں میں ہوتے ہیں کہ جہاں سخت پارٹی نظم حاوی ہوتا ہے۔” (ص 24)

”جب امریکیوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ ذاتی طور پر یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کا اپنی ہی صنف کے افراد کے ساتھ جنسی عمل کرنا قابل قبول ہے؟ تو ان کی اکثریت اثبات میں جواب دیتی ہے۔ اب سے بیس برس پہلے لوگوں کی رائے اس سے بہت مختلف ہوا کرتی تھی۔” (ص 30)

”میرا عقیدہ ہے کہ یسوع مسیح نجات دہندہ اور خداوند کے بیٹے ہیں۔ پروٹسٹنٹ، رومن کیتھولک، مشرقی آرتھوڈکس، کوپٹس، سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ اور بہت سے دوسرے مذہبی لوگ بھی بغیر کوئی سنجیدہ سوال اٹھائے ان عقائد کو مانتے ہیں۔ ہم نے اپنے بیپٹسٹ فرقے کی کچھ خاص باتوں کو بھی دل و ذہن میں جذب کر لیا ہے۔ ہمارے نزدیک بپتسما صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اتنے پختہ اور بالغ نظر ہوں کہ یسوع مسیح پر شخصی ایمان لا سکتے ہوں۔ پانی میں غوطہ دینا ہمارے نجات دہندہ کی موت، تدفین اور حیاتِ نو کی علامت ہے۔ ہم کتاب مقدس کو مکمل طور پر خداوند کا ارادہ مانتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ یسوع مسیح کے الفاظ و اعمال ہی کے مطابق انجیل مقدس کی تعبیر و تشریح کی جانی چاہیے، چنانچہ کتاب مقدس کی اکثر و بیشتر مددگار ثابت ہونے والی انسانی تشریحات کو منزہ عن الخطاء یا مصدقہ مذہبی ضوابط کا مجموعہ، یا ایمانی احتساب کے ذرائع نہیں مانا جاتا۔” (ص 32)

ایوانجیلیکل کی حیثیت سے ہمارا عالمی مشن یہ ہے کہ بغیر کسی تعصب اور امتیاز کے اپنا عیسائی عقیدہ دوسروں تک پہنچائیں۔ ہم یسوع مسیح کی اس ہدایت پر اپنی ذاتی شہادت (Witnessing ) کے ذریعے یا دوسروں کے لیے باقاعدگی کے ساتھ مالی قربانی دے کر عمل کرتے ہیں۔ میری زندگی کے بیشتر حصے میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ہمارے بیپٹسٹ چرچ جنوبی بیپٹسٹ کنونشن کے رکن ہوں گے جس کا بنیادی مقصد امریکا اور دنیا بھر میں ہمارے مشنری کام میں تعاون دینا تھا۔” (ص 32)

”ہمارا ایک اور پختہ عقیدہ چرچ اور ریاست کی مکمل علیحدگی ہے۔ یہ بہت اہم معاملہ تھا اور ہم نے ایسے عیسائی شہیدوں (Martyrs ) کے بارے میں پڑھا تھا جنہوں نے اپنی جان کی قربانی دے دی لیکن کسی غیر مذہبی رہنما (سیکولر لیڈر) کو مذہبی آزادی میں دخل اندازی نہیں کرنے دی، اگرچہ کچھ عیسائی افراد کو (بشمول میرے والد کے) عوامی معاملات میں حصہ لینے کی آزادی دی گئی تھی، تاہم جانبدارانہ سیاسی دنیا میں چرچ کے داخلے کا تصور ہمیں بہت برا لگتا تھا۔ ہم مذہبی آزادی، عیسائی عقیدہ نہ رکھنے والوں کے لیے ہمدردی اور خداوند کے سامنے برابری کے حامل تمام انسانوں کے احترام پر ایمان رکھتے ہیں۔” (ص 33)

”جب میں بائبل کلاسوں کو پڑھاتا ہوں تو اپنے عقیدے کے جوہر کی تشریح کی کوشش کرتا ہوں، میں اپنے سامعین کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ عیسائیت کو اپنی روزمرہ زندگی سے جوڑنے پر آمادہ ہوں۔ اگرچہ جدید عیسائی کمیونٹی میں اختلافی مباحث زوروں پر ہیں، تاہم میں عموماً ایسے پیغامات چنتا ہوں جو ان اختلافی مباحث سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتے۔ ایک اتوار میری کلاس کے شرکاء کی تعداد بہت زیادہ تھی جن میں بیشتر مہمان تھے۔ میں نے ان سے ان کے مختلف فرقوں میں زیادہ زیر بحث موضوعات کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے فورًا بتایا اسکولوں میں لازمی عبادت، مذہبی تعلیم کے لیے سرکاری فنڈز کا استعمال، لیڈروں کی حیثیت سے عورتوں کی سروس (عبادت) نظریہ ارتقا، احکام عشرہ کی عوامی نمائش، مقامی چرچوں کی خودمختاری، عقیدے کی جبری قبولیت، پاسٹروں کی برتری، چرچ اور ریاست کے درمیان سرحدوں کا ختم ہو جانا”۔ (ص 53)

”جہاں مذہبی کمیونٹی میں فرقہ واریت، غلبہ و تسلط اور غصہ و نفرت پائی جاتی ہے، وہاں سیکولر، اور حد تو یہ ہے کہ حکومتی گروپوں میں بھی یہی رجحانات موجود ہیں۔ سیکولر ادارے اور افراد بھی ذاتی تعصبات رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب عورتوں کے خلاف کھلم کھلا اور عموماً امتیاز برتا جا رہا ہے جو نہایت اشتعال انگیز عمل ہے۔ اس قسم کے مذہبی فیصلوں کی اساس غالباً سفید فام مردوں کی طرف سے کتاب مقدس کی منتخب عبارتیں ہیں، نیز یسوع مسیح اور اولین عیسائی چرچ کے لیڈروں کی تعلیمات اور اعمال کو فراموش کر دینا ہے۔” (ص 54)

”گزشتہ بیس برسوں کے دوران عیسائی بنیاد پرستوں نے یسوع مسیح کے اس فرمان کو کھلم کھلا چیلنج اور رد کیا کہ ”قیصر کا کام قیصر پر چھوڑو اور خداوند کے کام کو خداوند پر”۔ بیشتر امریکی اس بات کو درست سمجھتے ہیں کہ عوام سرکاری پالیسی پر اثر انداز ہوں، تاہم وہ اس امر کو درست نہیں سمجھتے کہ کوئی مذہبی گروہ کسی جمہوری حکومت کے کاموں پر کنٹرول پا لے، یا سرکاری اہل کار مذہبی معاملات میں دخل انداز ہوں، یا کچھ خاص مذہبی اداروں کے حق میں قوانین یا ٹیکس محاصل کو استعمال کریں۔” (ص 62)

”میں نے پوپ کی دوسرے عیسائیوں کے علاوہ یہودیوں اور مسلمانوں میں تبلیغ کی کوششوں کو سراہا، اور چرچ کو عالمی اہمیت دلوانے کی ان کی جدوجہد کی تحسین کی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ آزادانہ تبادلۂ خیال کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے عورتوں کو کمتر سمجھنے اور انہیں پادری نہ بنانے کے ان کے فیصلے سے اختلاف کیا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ اولین عیسائی چرچ کے لیے ان کے کردار کی توہین ہے۔” (ص 63)

”مجھ سے پوچھا جانے لگا ہے کہ کیا کبھی میرے عیسائی عقائد اور صدر کی حیثیت سے میرے دنیاوی (سیکولر) فرائض کے درمیان تصادم پیدا ہوا تھا؟ کچھ معاملات میں ایسا ہوا تھا تاہم میں نے ہمیشہ اپنے اس حلف کا احترام کیا کہ میں ”ریاستہائے متحدہ امریکا کے آئین کا تحفظ اور دفاع کروں گا”۔ مثال کے طور پر میرا ایمان ہے کہ یسوع مسیح اسقاط حمل یا سزائے موت کو کبھی قبول نہ کرتے، تاہم میں نے اپنی بہترین اہلیت کے مطابق سپریم کورٹ کے اس نوع کے فیصلوں کی تعمیل کی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے خیال کے مطابق ان کے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوششیں بھی کیں۔” (ص 65) (جاری ہے)