نئی جنریشن سے کچھ باتیں

نئی جنریشن تعمیری کاموں کا سوچے، بڑے اہداف سامنے رکھ کر بڑے منصوبے بنائے، اپنے اداروں کے لیے ٹیم ورک اورفریم ورک بنائے۔ جب سب کچھ طے ہوجائے تو پھر ڈٹ کر کام کرے۔ ڈائری کے 365 صفحات پر لکھے گئے ایک ایک کام، ایک ایک منصوبے اور ایک ایک مشن اور ایک ایک ہدف کی طرف بڑھتے ہی چلے جائیں۔ ایک وقت آئے گا جب آپ خود دوسروں کے لیے مثالی نمونہ اور اعلیٰ رول ماڈل بن جائیں گے۔ پیچھے آنے والی نئی نسل آپ کو فالو کرے گی۔ آپ کی مثال کو سامنے رکھے گی۔ آپ کے طے کردہ گائیڈ لائنز پر چلے گی۔ اسی طرح جہدِ مسلسل اور عمل پیہم کرے گی جیسے آپ نے کی۔ وہ بھی آپ کے نشانِ منزل پر چلتے چلتے منزل پالیں گے۔ آپ کی طرح وہ بھی امر ہو جائیں گے۔ وہ بھی تاریخ کے صفحات پر اپنا نقش چھوڑ جائیں گے۔سب سے پہلے آپ نے خواب دیکھنے ہیں، سوچنا بھی ہے، منصوبہ بندی بھی کرنی ہے، عملی اقدامات بھی کرنے ہیں، عرق ریز محنت بھی کرنی ہے۔

آپ اپنے مستقبل کی جو تصویر دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے وہ کام کریں جو ہر لمحہ، ہر گھنٹہ، ہر دن، ہر ہفتہ، ہر ماہ، ہر سال… آپ کو اپنے وژن کے قریب تر لے جارہے ہوں۔ اسی سے کامیابیاں، ترقیاں اور خوشیاں ملتی ہیں۔ یہی وژنری اور کامیاب لوگوں کی عادتوں میں سے ایک اہم ترین عادت تھی۔ سب محنت کرنے والے تھے۔
جوانی ہی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اُٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے
یہ بات یاد رکھیں! خوابوں کی تعبیر نہیں ملتی ہے جو جہدِ مسلسل، عمل پیہم، مستقل مزاجی اور محنت سے کام نہیں کرتے…
عمل کی سوکھی رگ میں ذرہ سا خون شامل کر
میرے ہمدم فقط باتیں بناکر کچھ حاصل نہیں ہوتا

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام بھی دنیا میں امر ہوجائے، اگر آپ بھی کسی بھی فن، کام اور منصوبے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ بھی اچھے اچھے خواب دیکھیں، سوچیں، غو رو فکر کریں، منصوبے بنائیں، حکمت عملی سیکھیں، اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں، اپنے ذہن کو استعمال کرنا سیکھیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ کام مزدور کرتا ہے، لیکن مزدوری اسے سب سے کم ملتی ہے، جبکہ ٹھیکیدار اور نقشہ بنانے والے کو سب سے زیادہ رقم ملتی ہے، چنانچہ آپ پوری کوشش کر کے پہلے سوچیں، منصوبہ بندی کریں، پھر عملی اقدامات کی طرف آئیں۔

آپ اس پر یقین کرلیں کہ جس طرح عزم اور دعا کا بظاہر کوئی وجود نظر نہیں آتا، لیکن ان سے بڑے بڑے کام ہو جاتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ صرف خوابوں، خیالوں، آرزوئوں اور خواہشوں سے کچھ نہیں ہوتا، اس کے لیے عملی اقدام، جہدِ مسلسل اور عمل پیہم لازمی شرط ہے۔

صرف خواہشوں اور آرزوئوں سے یہ دنیا نہیں چلتی۔ اس کے لیے کام کرنا پڑتا ہے، عمل کرنا پڑتا ہے، رسک لینا پڑتا ہے، اپنی جان خطرات میں ڈالنی پڑتی ہے، بلکہ بعض اوقات اپنی قیمتی جان قربان بھی کرنا پڑتی ہے۔ کیا ہی خوب کسی شاعر نے کہا ہے
غمِ آرزو کا حسرت سبب اور کیا بتاوں
میرے شوق کی بلندی میری ہمتوں کی پستی
اسی طرح کا ایک اور شعر ہے
بے عمل دل ہو تو جذبات سے کیا ہوتا ہے؟
دھرتی بنجر ہو تو برسات سے کیا ہوتا ہے؟
ہے عمل لازمی تکمیل تمنا کے لیے
ورنہ رنگین خیالات سے کیا ہوتا ہے؟

فطری طور پر ہر شخص ہر جگہ اور ہر کام میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ایسی کامیابی چاہتا ہے کہ اسے تمام غموں، پریشانیوں، مصیبتوں اور ہر قسم کی ٹینشن وغیرہ سے نجات مل جائے۔ ایک بات یاد رکھیں کہ جب ہم ”کامیابی” کہتے ہیں تو اس سے دین اور دنیا دونوں کی کامیابی مراد ہوتی ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے ہاں کامیابی کا وہ تصور نہیں ہے جو مغرب کے ہاں ملتا ہے۔ مغرب اور مغربی مفکرین نے کامیابی کو صرف دنیاوی کامیابی تک محدود کیا ہوا ہے، ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اب مسلم معاشروں میں بھی کامیابی کا یہی تصور پنپنے لگا ہے۔

ہمارے ہاں کامیابی کا تصور معاشرے میں مروّج روایتی تصور سے قدرے مختلف ہے۔ ہمارے نزدیک کامیابی کا وہی تصور ہے جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، چنانچہ قرآن کی سورة البقرہ کی آیت نمبر 201میں ہے: ”اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی دے۔” دنیا اور آخرت دونوں کی بہتری اور کامیابی کا حکم دیا گیا ہے، اور جو شخص صرف دنیاوی کامیابی کے لیے ہی ساری جدوجہد کرتا ہے، اور آخرت کو بالکل بھول جاتا ہے تو اس کے بارے میں بڑی سخت وعید ہے، چنانچہ قرآن کی سورة البقرہ کی آیت نمبر 200میں ہے: ”اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔” ایک تیسرا طبقہ بھی ہے۔ جو اپنی نالائقی، کوتاہی، سستی، کمی، غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے دنیا میں بھی کامیابی حاصل نہیں کر پاتا اور آخرت کے لیے بھی توشہ تیار نہیں کرتا۔

ایسے شخص کے بارے میں قرآن کی سورة الحج کی آیت نمبر 11ہے: ”ایسے شخص نے دنیا بھی کھوئی، اور آخرت بھی۔” یعنی دین اور دنیا دونوں میں ناکامی ہوتی ہے، دونوں میں خسارہ ملتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا میں یا آخرت میں ناکام ہوتا ہے تو اس اس کا ذمہ دار وہ خود ہی ہے۔ خالقِ کائنات نے تو ہر شخص کے لیے کامیابی اور ناکامی کے اصول، ضوابط، قاعدے، فارمولے، اسباب وغیرہ بتا دیے ہیں۔ قرآن کی سورة البلد کی آیت نمبر 10ہے: ”اور ہم نے اس کو دونوں راستے بتا دیئے ہیں۔” اب یہ انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے۔