ایرانی قوم اور حکمرانوں کا کڑا امتحان

امریکا نے بالآخرایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کردیا اور امریکی صدر ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ امریکی طیارے فردو،نطنز اور اصفہان میں ایران کی تین ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرکے بسلامت وطن واپس آنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ نے ایران کو ان حملوں کے بعد جنگ بند کرنے کا پیغام دیتے ہوئے ردعمل دینے کی صورت میں مزید حملوں کی دھمکی بھی دی ہے۔

ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں ایران پر مرکوز ہیں کہ وہ اس پر کیا ردعمل دیتا اور کس طرح اس جنگی معاملے کو ہینڈل کرتا ہے؟ اس میں شک نہیں ہے کہ ایران امریکا اور اسرائیل کو جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے جیساکہ حالیہ دس روزہ جنگ میں اس نے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دے کر ثابت بھی کیا ہے مگر اب امریکا کے بھی جنگ میں کود پڑنے کے بعد یقینا ایران کے لیے مشکل صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ ویسے ایرانی قوم بہت بہادر شمار ہوتی ہے۔فارس کی سلطنت کسی زمانے میں عالمی سپرپاور رہی ہے۔ ایران اور امریکا کی کشمکش بھی نئی نہیں ہے۔ 1901ء میں ایران کی سرزمین پر تیل دریافت ہوا۔ چنانچہ روس اور برطانیہ نے 1907ء میں ایک معاہدہ کیا جس کی بدولت ایران کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں تقسیم کرلیا۔ 1921ء میں ایک جرنیل رضا خان نے بادشاہ کا تخت اُلٹ کر پہلوی خاندان کے اقتدار کی بنیاد رکھی۔ 1941ء میں روسی وبرطانوی فوجوں نے ایران پر قبضہ کرلیا۔1946ء میں روسی افواج واپس چلی گئیں۔ ایران میں اولین جمہوری انتخابات 1950ء کے عشرے میں ہوئے لیکن امریکا نے ایک سازش کے ذریعے منتخب وزیراعظم ڈاکٹر مصدق حسین حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ اس میں سی آئی اے نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد امریکا نے ایرانی تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لے لیا تھا۔ امریکی حکومت نے ایران کے منتخب لیڈر کی جگہ ایک ڈکٹیٹر رضا شاہ پہلوی کو تعینات کردیا جس نے ملک کی آزادی کی تمنا رکھنے والوں پر ظلم وتشدد اور قتل وغارت کی انتہا کردی اور ایران کو امریکا کی کٹھ پتلی بنادیا۔ 1979ء کو شاہ ایران ملک گیر احتجاجی تحریک اور مسلح بغاوت کی وجہ سے ملک سے فرار ہوگئے اور جلاوطن شیعہ رہنما روح اللہ خمینی نے فرانس سے تہران پہنچ کر زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی۔ 1980ء سے 1988ء تک ایران عراق جنگ ہوئی۔ 1989ء میں خمینی کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد سے علی خامنہ ای ایران کے روحانی و مذہبی رہنما ہیں۔پاسداران انقلاب ایران کی مذہبی قیادت کی عسکری قوت شمار ہوتی ہے مگر کچھ عرصے سے یہ ریاستی سپاہ کمزور ی کا تاثر دے رہی ہے۔ اس وقت پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس کا حال یہ ہے کہ ملک کے دارالحکومت میں را اور موساد کا نیٹ ورک دہائیوں سے کام کرتا رہا۔ پاسداران کی صفوں میں غدار پرورش پاتے رہے یہاں تک کہ ملک کی اعلی ترین فوجی قیادت، انقلابی رہنماؤں اور چوٹی کے ایٹمی سائنسدانوں کو چند گھنٹوں میں ان کے گھروں کے اندر بے بسی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ شاید تاریخ کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ناکامی ہے۔ یہ اپنے ملک کی خبر رکھنے کی بجائے عراق، شام، لبنان اور پاکستان کے علاقوں گلگت بلتستان میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم میں مصروف عمل رہے۔ امید ہے ایران نے ضرور کچھ سبق سیکھا ہوگا۔بہر حال ابتدائی دھچکوں کے بعد پاسداران انقلاب نے خود کو سنبھال لیا ہے او ر اب وہ ایران پر پے درپے میزائل حملے کر رہی ہے۔مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ جنگ کا دائرہ پھیلنے کی صورت میں پاسداران انقلاب کتنی مہارت اور عزم کا ثبوت دے پاتی ہے۔

دوسری طرف بزنس ڈیل بنانے کی غیر معمولی مہارت رکھنے والے امریکی صدر ٹرمپ جس انداز میں سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں حالات کی سنگینی کے باوجود یہ انداز ایک مسخرہ پن معلوم ہوتا ہے۔ ایران کے حوالے سے بغیر کسی سفارتی پروٹوکول ان کی بے لاگ اور دو ٹوک قسم کی گفتگو بس جلدی سے اپنی مرضی کی ڈیل فائنل کرنے کی ان کی افتاد طبع کو ظاہر کر رہی ہے۔ یہ ایک جلد باز تاجر کی اپنا سودا بیچنے میں عجلت پسندی کا مظاہرہ ہے۔ امریکی صدر ایک انتہائی ناقابل اعتبار شخصیت کے طور پر پیش ہوئے ہیں جن کی کسی بھی بات پر چوبیس گھنٹے کیلئے بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ بہت محدود زاویہ نگاہ رکھنے والا ایک چالاک بہروپیا امریکی مسند صدارت پر فائز ہے۔ اسرائیلی لابی اس وقت ٹرمپ پر ہر طرف سے غیر معمولی دباؤ ڈالے ہوئے ہے۔ صیہونی منصوبہ ساز اپنی مکاری سے امریکا کو لمبی جنگ میں دھکیلنے میں کامیاب ہو گئے تو ٹرمپ کی اس سے بڑی حماقت کوئی نہ ہوگی۔

ایران پر حملے کے بعد قوم سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ وہ اب جنگ نہیں بلکہ امن چاہتے ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکا نے جلد بازی میں حملہ کرکے اسرائیل کو فیس سیونگ دے دی ہے اور اب وہ جنگ بندی کو ترجیح دے گا،ایران نے بھی کہا ہے کہ امریکی حملوں میں اس کے ایٹمی پروگرام کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ تو کیا فریقین اب انہی دعووں پر اکتفا کرکے امن کی طرف بڑھیں گے یا جنگ کے شعلے مزید بھڑکادیے جائیں گے؟یہ اگلے دوچار روزمیں واضح ہوجائے گا۔ اس وقت ایرانی قوم اور حکومت کوکڑے امتحان کا سامنا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس میں کس حدتک کامیاب ہوپاتے ہیں۔