اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ کا مہنگائی پر محدود اثر پڑے گا۔ شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے۔ تجارتی خسارے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی بینک نے امید ظاہر کی ہے کہ مالی سال 2025-26ء میں مہنگائی اہداف کے مطابق مستحکم ہو جائے گی۔ البتہ یہ استحکام علاقائی اور جغرافیائی تنازعات اور تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ جیسے خطرات سے مشروط ہے۔
معیشت سے متعلق پیش گوئی یا خدشات و امکانات کا اظہار کرتے ہوئے ہمیشہ معروضی حالات کو پیش نظر رکھاجاتا ہے اور ممکنہ نتائج کو غیر معمولی حالات پیش نہ آنے سے مشروط کیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اسٹیٹ بینک کے ماہرین اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ مشرق وسطیٰ کے حالات میں اتھل پتھل سے تیل کی قیمتیں اتار چڑھاؤ کا شکار ہوسکتی ہیں۔چنانچہ ایران اسرائیل جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ملک میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ۔ اب ایران پر امریکی حملے کے بعد جنگ میں آبنائے ہرمز کی بندش کا خدشہ بھی شامل ہوگیا ہے اور میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس صورت حال میں اگلے دنوں میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔تیل کی قیمتیں بڑھنے کا مطلب پاکستان کے بیرونی قرضوں اور تجارتی خسارے میں اضافہ ہے۔ تجارتی خسارہ پہلے ہی 11ماہ میں تقریباً 25ارب ڈالر کے قریب ہے۔ پاکستان تیل کا درآمدی ملک ہے۔ اگرچہ پاکستان کے پڑوس میں ہی ایران جیساملک ہے جوکہ تیل کی دولت سے مالامال ہے، بھارت تک قریبی ملک ہونے کے ناطے اسی سے تیل خریدتا ہے اور چین بھی اس کا بڑا خریدار ملک ہے، مگر یہ امر ناقابل فہم ہے کہ ہم ایران سے سستا تیل کیوں نہیں خرید سکتے۔ اسی طرح گیس جوکہ ہماری معیشت میں مضبوطی پیدا کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے ، ایران گیس کی دولت سے بھی مالامال ہے اور پاکستان اس سے گیس خریداری کا معاہدہ بھی کرچکا ہے، لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ ہم اس سے نہ ہی سستا تیل خریدتے ہیں نہ ہی سستی گیس۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 10ڈالر فی بیرل بڑھتی ہے تو پاکستان کا خسارہ مزید 4سے 5ارب ڈالر یا اس سے بھی زیادہ بڑھ سکتا ہے۔ لگے ہاتھوں اعداد وشمار دیکھ لیتے ہیں۔ جولائی تا اپریل (دستیاب تازہ اعداد وشمار) 13ارب 29کروڑ 42لاکھ ڈالرز کی پیٹرولیم مصنوعات بمع خام تیل وغیرہ درآمد کی گئیں۔ اب اس میں صرف ماہ اپریل کی درآمدی مالیت ایک ارب 35کروڑ 42لاکھ ڈالرز کی ہیں۔ لہٰذا 4سے 5ارب ڈالر کے ناقابل برداشت بوجھ سہتے سہتے یا اس سے بھی کہیں زیادہ تیل کے درآمدی بل کے باعث معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ مہنگائی بڑھے گی، روزگار کے مواقع گھٹ جائیں گے۔ ان سب باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کیا یہ بات غلط ہو سکتی ہے کہ ہم مزید قرض کے حصول کے لیے پہلے سے زیادہ گڑگڑاتے ہوئے آئی ایم ایف کے دروازے پر چلے جائیں گے۔ لہٰذا آیندہ کی زری پالیسی میں ماہرین کو درآمدی تیل کے متبادل پر غور کرنا ہوگا۔ جس میں سے ایک ایران سے پیٹرول اور گیس کی خریداری کے امکانات بھی شامل ہونے چاہئیں۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ پاکستان کے تجارتی خسارے میں مستقل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب اس کا مکمل موازنہ پیش خدمت ہے۔ جولائی تا مئی 2025ء تک پاکستان کی کل برآمدات 29ارب 44 کروڑ 50لاکھ ڈالرز اور درآمدات 53ارب 45کروڑ ڈالرز کے باعث تجارتی خسارہ برائے جولائی تا مئی 2025ء یعنی سال کے صرف 11ماہ کا تجارتی خسارہ 24ارب 50لاکھ ڈالرز کا رہا۔ ملکی معیشت کا کھاتہ تجارتی خسارہ ہی ہے جو سدابہار ہے۔ ہمیشہ سے ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اب جس قسم کے عالمی معاشی حالات پیدا ہو گئے ہیں اور ایران کا پڑوسی ہونے کے ناطے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری خطرے سے دوچار ہو چکی ہے۔ کئی ممالک نے ایران کے ساتھ پاکستان سفر نہ کرنے کی ایڈوائزری جاری کردی ہے اور اپنے شہریوں کو پاکستان سفر نہ کرنے کی ہدایات دے دی ہیں۔
لہٰذا مرکزی بینک کے ماہرین کو اگلی زری پالیسی کے اعلان سے قبل پاکستانی معیشت کی نازک حالت، آئی ایم ایف کے بدترین رویوں، ایران، اسرائیل جنگ کے اثرات، غیرملکی سرمایہ کاری کی آمد پر ڈالر کے فرار پر گہری نظر رکھتے ہوئے زری پالیسی کی تیاری کے ساتھ حکومت کو معیشت کو لاحق خطرات کا حل بھی بتانا ہوگا۔ جس میں سرفہرست مہنگے تیل کے باعث ناگوار درآمدی مالیت کا حل پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشی استحکام کا حصول ممکن ہوسکے۔ کیونکہ زری پالیسی کا اہم مقصد بھی یہ ہوتا ہے کہ ملکی معیشت کو استحکام کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔ اگرچہ آیندہ معاشی مشکلات تو بے تحاشا ہیں۔ لیکن بہترین زری پالیسی جس میں اسٹیٹ بینک معیشت کی اصلاح کے لیے کئی اقدامات اٹھاتا ہے تاکہ معاشی استحکام کا حصول ممکن ہوسکے۔