ففتھ جنریشن وار اور نظریۂ پاکستان

پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد اسلام ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر یہ موقف اختیار کیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ تہذیبیں، دو الگ نظام ہائے حیات اور نظامِ زندگی کے متعلق دو الگ نظریات رکھتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن ضروری ہے، جہاں وہ اپنی جداگانہ تہذیب کی روشنی میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی گزار سکیں۔ یہی وہ نظریہ پاکستان ہے جس پر یہ ملک قائم ہوا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نظریے کو کمزور کرنے کی سازشیں شروع ہو گئیں۔ ان سازشوں کی نوعیت بھی بدلتی گئی، حتیٰ کہ آج کے دور میں دشمن نے ففتھ جنریشن وار کا محاذ کھول لیا ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں بندوق، میزائل یا ٹینک نہیں بلکہ الفاظ، اطلاعات، افواہیں اور ذہنی کنٹرول کے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں۔

ففتھ جنریشن وار یا پانچویں نسل کی جنگ درحقیقت ایک غیر روایتی جنگ ہے جس میں دشمن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ جنگ لڑے بغیر ہی مخالف ریاست کو اندر سے کھوکھلا کر دے۔ اس کا مقصد جسموں پر قبضہ نہیں بلکہ دماغوں اور دلوں کو زیر کرنا ہوتا ہے۔ اس جنگ میں میڈیا، سوشل نیٹ ورک، تعلیمی نظام، فنونِ لطیفہ اور حتیٰ کہ مذہبی بیانیے کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار وہ جنگ ہے جس میں گولی نہیں چلتی، مگر قومیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ یہ ایسی جنگ ہے جس میں بظاہر سب کچھ معمول پر ہوتا ہے، مگر اندر سے بگاڑ گہرا ہوتا جاتا ہے۔ یہ جنگ خفیہ، پیچیدہ اور دھندلی ہوتی ہے جس کا مقصد دشمن کے ذہن، عقائد، معیشت، سماج، اور ادارے کو اندر سے کمزور کرنا ہوتا ہے، بغیر کسی رسمی اعلانِ جنگ کے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان اس وقت اس فکری جنگ کے براہِ راست نشانے پر ہے اور سب سے بڑا ہدف نظریہ پاکستان ہے، جسے متنازع، فرسودہ یا غیر ضروری قرار دینے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔

اس جنگ کے ذریعے میڈیا میں اس بیانیے کو عام کیا جاتا ہے کہ دو قومی نظریہ ایک وقتی سیاسی نعرہ تھا، اسلام کو سیاست یا ریاست سے کوئی تعلق نہیں اور مذہب کو صرف انفرادی عبادات تک محدود رکھنا ہی ترقی کی راہ ہے۔ نئی نسل کو تاریخ سے کاٹنے کے لیے تعلیمی نصاب میں رد و بدل کیا جاتا ہے، اسلامی ہیروز کو متنازع بنایا جاتا ہے اور مغربی افکار کو ترقی کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر باقاعدہ ٹرینڈز کے ذریعے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے، اسلام پسندی تشدد پسندی سے جڑی ہوئی ہے اور سیکولر ازم ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔ فنونِ لطیفہ کے ذریعے اسلامی اقدار کا مذاق اڑایا جاتا ہے، خاندانی نظام کو دقیانوسی قرار دیا جاتا ہے اور مغربی طرزِ زندگی کو خوشحال زندگی کا ماڈل بنا کر دکھایا جاتا ہے۔

ان تمام حملوں کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل میں نظریاتی الجھن، فکری انتشار، دینی بیزاری اور قومی وحدت کی کمزوری بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ نسل جو کبھی کلمہ طیبہ کے نام پر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوتی تھی، اب اسے یہ تک نہیں معلوم کہ پاکستان کیوں بنا تھا، کس نظریے پر قائم ہوا تھا اور اسے باقی رکھنے کے لیے ہمیں کن قربانیوں کی ضرورت ہے۔ یوں ففتھ جنریشن وار کے ذریعے نہ صرف ریاستی نظام بلکہ اس کی فکری اساس پر حملہ کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں قوم کے اندر سے ہی قوم کے خلاف بیانیہ پیدا کیا جا رہا ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ اس فکری حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ ہماری ریاستی مشینری تیار ہے اور نہ ہی تعلیمی نظام۔ ہمارے اکثر تعلیمی ادارے صرف ڈگری یافتہ افراد پیدا کرنے میں مصروف ہیں، نظریاتی انسان تیار کرنے کا فریضہ انجام نہیں دے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں مذہب بیزاری اور مغرب پرستی کا رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو صرف سائنس، معاشیات اور ٹیکنالوجی کا مرکز نہیں بلکہ اسلامی تہذیب، تاریخ، اور تمدن کی روحانی اساس کی تربیت گاہ بھی ہونا چاہیے۔ یہیں سے وہ نسل تیار ہوگی جو اپنے وطن اور اپنے دین سے وفادار ہوگی۔

اسی طرح میڈیا کو بھی صرف ایک تفریحی ذریعہ سمجھنے کی بجائے فکری جنگ کا میدان سمجھنا ہوگا۔ میڈیا پر بیٹھنے والے اینکرز، تجزیہ کار اور میزبان صرف ریٹنگ اور اشتہار کی دوڑ میں نہ رہیں، بلکہ قومی بیانیے کے محافظ بنیں۔ فکری بیداری، علمی شعور اور نظریاتی وابستگی کو فروغ دیا جائے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ ایسے علمی و فکری ادارے قائم کرے جو باقاعدہ طور پر دشمن کے پروپیگنڈے کا جواب دیں اور نئی نسل کو اس فتنہ انگیز دور میں سچ اور جھوٹ کی پہچان دے سکیں۔

اس صورت حال سے نکلنے کے لیے سب سے پہلے نظریاتی تعلیم اور تربیت کی ازسرنو ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں میں تحریکِ پاکستان، اسلامی تاریخ اور اسلامی نظام حکومت پر مبنی مضامین کو لازم کیا جائے اور نوجوانوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں جدید فکری چیلنجز کا جواب دینا سکھایا جائے۔ میڈیا کو صرف تفریح یا سیاست کا ذریعہ بنانے کی بجائے ایک فکری مورچے کے طور پر استعمال کیا جائے، جہاں صحافی، اینکر اور دانشور دشمن کے پروپیگنڈے کا علمی، تحقیقی اور شرعی جواب دیں۔ اسلامی میڈیا اداروں کی تنظیم و اصلاح کی جائے اور ان کی سمت طے کی جائے کہ وہ امتِ مسلمہ اور نظریہ پاکستان کے محافظ بنیں، نہ کہ مغرب کے ترجمان۔

ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ریاستی و دینی اداروں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنی ہوگی تاکہ قومی بیانیہ صرف ایک تاریخی نعرہ نہ ہو بلکہ ایک زندہ اور مؤثر حکمتِ عملی بن کر سامنے آئے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جس طرح جنگِ آزادی میں بندوق کی ضرورت تھی، آج کی جنگ میں قلم، میڈیا اور فکری صلاحیت سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔ اگر ہم اس میدان میں پیچھے رہے تو دشمن ہمیں ہمارے ہی خیالات، الفاظ اور نوجوانوں کے ذریعے شکست دے دے گا، لہٰذا وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنی فکری سرحدوں کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو جائیں اور اس فکری جنگ میں مؤثر اور مربوط حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کو آنے والی نسلوں تک محفوظ پہنچائیں۔ یہ صرف ایک ریاستی ضرورت ہی نہیں، بلکہ ایک دینی، ملی اور تہذیبی فریضہ بھی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی غفلت برتی، تو ہماری فکری غلامی ایک بار پھر ہماری تہذیبی موت کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔