غصہ ایک فطری جذبہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے۔ یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دل کا خون جوش مارتا ہے، تاکہ انسان کے دل میں جو خلش یا تکلیف ہو، وہ کسی حد تک دور ہو سکے۔ یہ کبھی قابلِ تعریف ہوتا ہے اور کبھی قابلِ مذمت۔ قابلِ تعریف تب ہوتا ہے جب یہ حق کے لیے ہو اور انسان کو ایسے عمل پر نہ اکسائے جو اس کے دین یا دنیا کو نقصان پہنچائے۔ اور مذموم یا قابلِ مذمت تب ہوتا ہے جب یہ باطل کے لیے ہو، یا جس پر انسان قابو نہ رکھ سکے، جس کی وجہ سے وہ حد سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے دین یا دنیا کو نقصان پہنچا بیٹھے۔
اسلام غصے کو یکسر ختم کرنے کی بات نہیں کرتا بلکہ اسے قابو میں رکھنے اور حق و انصاف کے دائرے میں بند کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ صحیحین کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ حقیقی طاقتور وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑنے اور مار گرانے پر قادر ہو، یا جو لڑائی جھگڑے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے بلکہ حقیقی طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے، اپنے جذبات کو کنٹرول کرے، غصہ ضبط کرے اور صبر و بردباری کے ساتھ مشکلات و آزمائشوں کا سامنا کرے۔
ضبط نفس اور غصے کو پی جانا مومن کی سب سے اعلی صفات میں سے ہے، یہ نفس کی مضبوطی، بلند ہمت اور عقل کی پختگی کی علامت ہے۔ زندگی کے کچھ لمحات دہکتے انگارے کی مانند ہوتے ہیں ہم نادانستہ طور پر ان کی طرف قدم بڑھا دیتے ہیں، کبھی غصے کی شدت سے، کبھی کسی تکلیف دہ بات سے، یا کسی رویے کی تلخی سے۔ ہوسکتا ہے لوگ ہمیں نہ دیکھیں، لیکن ہمارے اندر ایک آگ سلگ رہی ہوتی ہے، جو نکلنے کا راستہ ڈھونڈتی ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں پختگی کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ بات کا جواب دینے کی صلاحیت میں نہیں، بلکہ اس لمحے خاموش رہنے کی مہارت میں جب اندر آوازیں بلند ہو رہی ہوں، اس وقت خود کو سنبھالنے کی طاقت میں جب دل چاہتا ہو کہ سب کچھ توڑ دیا جائے۔ غصے کے لمحے میں بلند آواز غالب محسوس ہوتی ہے، مگر گہرائی میں جاکر دیکھیں تو طوفان کے وقت خاموشی کمزوری نہیں بلکہ اخلاقی جیت ہوتی ہے، جیسے دریا چٹان پر غالب آ جائے، بغیر شور کیے، لیکن اثر چھوڑ جائے۔ غصہ محض ایک عارضی احساس نہیں، بلکہ ایک مکمل حیاتیاتی و نفسیاتی کیفیت ہے، جس میں دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، نظر کی وسعت کم ہو جاتی ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت مفلوج ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اکثر وہ باتیں جن پر ہمیں بعد میں افسوس ہوتا ہے، غصے کے عالم میں کہی جاتی ہیں اور وہ فیصلے جنہوں نے ہمارے تعلقات بگاڑے، وہ بھی اکثر غصے کے لمحوں میں کیے گئے ہوتے ہیں۔
اس کے برخلاف اختیار کردہ خاموشی اور متوازن نظراندازی، نہ تو حق سے دستبرداری ہوتی ہے اور نہ ہی کمزوری کی علامت، بلکہ یہ متوازن قوت کے دو اہم ستون ہیں۔ جو شخص اپنے جذبات کو شعوری طور پر قابو میں رکھتا ہے، وہی اپنے تعلقات کو بچاتا ہے، اور اپنی شخصیت کو خود اور دوسروں کی نظر میں باوقار رکھتا ہے۔ہم انسان معصوم نہیں اور نہ ہی ہم سے جذبات کی برف بننے کا مطالبہ ہے، لیکن ہمیں دعوت دی گئی ہے کہ ہم غصے کو ایسے سنبھالیں جیسے چولہے میں آگ کو سنبھالا جاتا ہے، چنانچہ نہ تو اسے ہر چیز جلا دینے دیں اور نہ ہی ہر بار بجھا دیں، بلکہ وقت پر اس پر قابو پانا سیکھیں۔
درگزر کا فن یہ نہیں کہ ہر چیز کو نظرانداز کیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ سمجھداری سے انتخاب کیا جائے۔ چھوٹی لغزشوں کو نظرانداز کیا جائے، ان باتوں کو چھوڑ دیا جائے جو زندگی کا رخ نہیں بدلتیں اور ان باتوں پر سکون برباد نہ کیا جائے جو اس کے قابل ہی نہیں۔ زندگی کی بھیڑ میں، عقل مندی اسی میں ہے کہ ہر بات کا جواب نہ دیا جائے، ہر نظر پر گرفت نہ کی جائے، اور ہر تفصیل پر جنگ نہ چھیڑی جائے۔ دفتری ماحول ہو، گھریلو دائرہ ہو، یا عام مجلسیں ہوں، جو شخص نظراندازی کا فن جانتا ہے، اس کا دل وسیع ہوتا ہے اور نگاہ دور رس۔
وہ ہر موقع پر خود پر بوجھ نہیں ڈالتا، اور نہ ہی ہر دن کو ختم نہ ہونے والے جھگڑوں کا شکار بناتا ہے۔ مسلمان فطری طور پر ٹکراؤ کا نہیں، بلکہ صلح کا داعی ہوتا ہے، وہ صرف ضرورت کے وقت آواز بلند کرتا ہے، اور انتقام کے بارے میں صرف اس وقت سوچتا ہے جب درگزر کی گنجائش نہ رہے۔ یہاں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ابھرتی ہے کہ وہ نئی نسل کے دل میں یہ رویہ پیدا کریں۔ اپنے بچوں کو سکھائیں کہ صبر مردانگی ہے، خاموشی حکمت ہے، اور عزت صرف بلند آواز سے نہیں بلکہ وقار اور اطمینانِ نفس سے محفوظ کی جا سکتی ہے۔ زندگی ایک مسلسل لڑائی کا میدان نہیں۔ نہ ہم ہر غلطی پر رک سکتے ہیں، اور نہ ہر اختلاف یا تلخ بات کا جواب دینا ضروری ہے۔ کچھ آگیں خود ہی بجھ جاتی ہیں اگر انہیں ایندھن نہ ملے، اور کچھ لکڑیاں اس وقت تک نہیں جل سکتیں جب تک ہوا نہ چھوئے۔ سو ہمیشہ یہ چنو کہ تم آگ کے سامنے پانی بنو، نہ کہ ایسی ہوا جو اسے بھڑکائے۔ اور اگر کبھی تم غصے کے چوراہے پر کھڑے ہو جاؤ، تو اپنے دل سے پہلے پوچھو: کیا یہ واقعی اس قابل ہے کہ میں اپنا سکون کھو دوں؟ کیا ایک لمحے کے غصے کے لیے اپنا وقت اور عزت قربان کر دوں؟ پھر عقلمند لوگوں کی یہ بات یاد کرو کہ اگر خاموشی حکمت سے ہو، تو وہ سب سے بلیغ جواب اور سب سے عزت دار فتح ہوتی ہے۔ لہٰذا آگ کو ہوا دینے کی بجائے اپنے دل کو سکون دیں کہ یہی اصحاب عزیمت کا طریقہ ہے۔