بعض غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں!

ایران اسرائیل جنگ میں ہماری حمایت، ہمدردی، اخلاص اور دعائیں ایک ہی فریق کے ساتھ ہیں اور وہ ایران ہے۔ اسرائیل ہمارا ازلی دشمن ہے، اس نے ہمیشہ مسلم دنیا اور اسلام کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کی۔ پاکستان سے اسے ویسے بھی چڑ ہے کہ یہ ملک بنا ہی کلمہ کے نام پر ہے۔ پاکستان کی اسلامی شناخت اور نظریاتی پہچان اسرائیل جیسے ممالک کے لئے ہمیشہ ناقابل قبول اور بہت تکلیف دہ رہی ہے۔ ویسے بھی اس جنگ میں اسرائیل صریحاً زیادتی کر رہا ہے، وہ کھلا ظلم پر اُترا ہے۔ ایران مظلوم ہے، اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ پورا مغرب کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسرائیل اور امریکا کا یہ کہنا کہ ایران نیوکلیئر قوت نہ بنے جبکہ وہ خود اس طاقت کے حامل ہیں اور ہرگز ہرگز دستبردار ہونے کو تیار نہیں، یہ سب بھی عدل اور انصاف کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ اس لئے میری حمایت، ہمدردی، دعائیں سب کچھ ایران کے ساتھ ہیں۔ اس وقت جنگ کی صورتحال میں ہم ایران کو طعنے نہیں دینا چاہتے، تاہم ایرانی قیادت کو اپنی ان بڑی غلطیوں بلکہ بلنڈرز کا احساس تو ضرور ہورہا ہوگا جو ماضی میں ان سے سرزد ہوئیں۔ یہ غلطیاں ایسی تھیں جن کے آفٹر ایفکٹس آج ایران کو سہنے پڑ رہے ہیں۔ اگر ایران وہ غلطیاں نہ کرتا تو آج تنہا بھی نہ ہوتا اور شاید اس کی عسکری قوت بھی زیادہ بہتر ہوتی۔ یہ باتیں اس لئے بھی زیربحث آ رہی ہیں کہ اس جنگ سے بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان اور دیگر مسلمان ملک بھی اس سے خاصا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس میں تاریخ کے اسباق بھی ہیں اور حکمت عملی کی غلطیوں کی تباہ کاری بھی جھلک رہی ہے۔

ایران کی دو بڑی غلطیوں کا ذکر تو اب ایران کے حامی بھی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایک تو جو اس نے مختلف ممالک میں اپنی پراکسیز پر بڑی انویسٹمنٹ کی، ان کی خاطر دیگر ہمسایہ عرب ممالک کی ناراضی مول لی اور بہت کچھ گنوایا۔ لبنان، عراق، شام، یمن ہر جگہ ایسے ہی کیا۔ پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک میں بھی اپنی پراکیسز بنائیں اور مذہبی اعتبار سے تقدس رکھنے والے مقامات کی حفاظت کے نام پر سادہ دل نوجوانوں کو استعمال کیا۔ یہ سب غیر ضروری تھا۔ خاص کر شام میں ایران بہت ہی آگے چلا گیا۔ بے پناہ جانی نقصان ہوا اور آخرکار آج وہ شام سے بالکل ہی آؤٹ ہوچکا ہے۔ دوسری غلطی ایران کے اندر پاسداران انقلاب کو غیرمعمولی اہمیت دینا، انہیں بے پناہ مالی وسائل دینا ہے۔ یہ سب انویسٹمنٹ اور فوکس اگر ایرانی دفاع پر کیا جاتا، چین، روس جیسے ممالک سے جدید طیارے خریدے جاتے، جدید ترین اینٹی میزائل سسٹم لیا جاتا تو شاید اس جنگ میں ایران کچھ بہتر دفاع کی پوزیشن میں تھا۔ جس طرح ایران نے میزائل پر فوکس کیا، پیسہ خرچ کیا اور آج انہی میزائلوں نے دشمن کو خاصا تنگ کر رکھا ہے، ان کا جانی مالی نقصان ہو رہا ہے، یہی اینٹی میزائل سسٹمز پر بھی کرنا چاہیے تھا۔

ایران کی ایک اور بڑی غلطی بھارت کو پاکستان پر ترجیح دینا ہے۔ ایران کو سوچنا چاہیے تھا کہ پاکستان اور ایران فطری حلیف ہیں کیونکہ پاکستان نظریاتی طور پر ہمیشہ سے اینٹی اسرائیل ہے اور رہے گا۔ خاص کر پاکستان ایٹمی قوت بننے کے بعد اسرائیل کے لئے سراسر ناقابل قبول ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان اور ایران فطری ساتھی بنتے ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل اور بھارت ایک دوسرے کے دوست ہیں، دونوں کے درمیان بہت سے دفاعی،ا سٹریٹجک معاملات چل رہے ہیں، بھارت اپنا اسلحہ، ٹیکنالوجی، مشاورت وغیرہ اسرائیل سے کرتا ہے اور کئی بھارتی بزنس مینوں نے اسرائیل میں اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کر رکھی ہے۔ بھارتی بزنس مین گوتم اڈانی ایران میں بھی کاروبار کرتا ہے اور اسرائیل میں بھی۔ ایران کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس ایران نے ہمیشہ بھارت کو پاکستان پر ترجیح دی۔ ایرانی سرزمین کو کلبھوشن یادو جیسے بھارتی جاسوسوں اور بلوچ دہشت گرد گروپوں کے لئے میسر رکھا۔

گزشتہ روز معروف بھارتی ویب سائٹ وائر اُردو میں ممتاز کشمیری صحافی سید افتخار گیلانی کا کالم شائع ہوا۔ افتخار گیلانی کا تعلق سوپور (مقبوضہ کشمیر) سے ہے، وہ نامور کشمیری لیڈر سید علی گیلانی کے داماد بھی ہیں۔ افتخار گیلانی دہلی میں صحافت کرتے رہے، کئی ممتاز بین الاقوامی اداروں سے وابستہ رہے، بی بی سی کے لئے بھی کام کیا۔ آج کل وہ ترکی میں ایک صحافتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ افتخار گیلانی نے اپنے کالم میں بھارتی حکومت پر تنقید کی ہے کہ اس نے ایران کے احسان کو بھلا دیا اور اس مشکل وقت میں وہ ایران کی لفظی حمایت سے بھی گریز کر رہی ہے۔

گیلانی صاحب نے اپنے کالم میں جو واقعہ لکھا وہ اہم اور پڑھنے کے قابل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ”مارچ 1994 ء میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن (جسے اب انسانی حقوق کونسل کہا جاتا ہے) میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) ایک قرارداد پیش کرنے جا رہی تھی، جس میں کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہندوستان کی مذمت کی جانی تھی۔ اس قرارداد کی منظوری کی صورت میں اسے سلامتی کونسل میں لے جانے کا منصوبہ تھا، جہاں امریکا سمیت کئی مغربی ممالک ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے منتظر تھے۔ تب برخلاف مسئلہ فلسطین، مغربی ممالک کشمیر پر نسبتاً نرم رویہ رکھتے تھے، کیونکہ ہندوستان سوویت یونین کی سوشلسٹ لابی کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب سوویت یونین بکھر چکا تھا اور اس کا جانشین روس مغرب سے معاشی امداد کی آس میں تھا۔ ایسے میں ہندوستان کے لیے سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کو ویٹو کروانا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا۔ جنیوا میں قرارداد پر غور و خوض جاری تھا اور دہلی میں وزیراعظم پی وی نرسمہا را کو اس کے ممکنہ نتائج کا بخوبی ادراک تھا۔ انہوں نے ایک خفیہ چال چلی۔”

افتخار گیلانی صاحب نے لکھا کہ وزیراعظم نرسہماراو اپنے وزیر خارجہ دنیش سنگھ کے پاس گئے جو تب بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل تھے۔ انہیں اس بیماری میں وہیل چیئر اور ڈاکٹر کے ساتھ ایک سیکرٹ مشن پر تہران، ایران بھیجا گیا۔ بھارتی وزیر خارجہ نے ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی، صدر علی ہاشمی رفسنجانی، اسپیکر علی ناطق نوری سے ملاقاتیں کیں اور بتایا کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بھارت کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ ایرانی رہنمائوں نے بھارت کو تسلی دی، صدر رفسنجانی نے نہ صرف ان کی بات غور سے سنی بلکہ وزیراعظم راؤ کے لیے یہ پیغام بھی دیا کہ ایران ہندوستان کو ہر ممکن سفارتی تحفظ فراہم کرے گا۔ تین دن بعد جنیوا میں جب پاکستانی وفد نے قرارداد کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو ایران کے نمائندے نے تہران کی براہِ راست ہدایت پر اس کی حمایت سے انکار کر دیا۔ ایران نے موقف اختیار کیا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کا دوست ہے اور یہ مسئلہ نوآبادیاتی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر حل ہونا چاہیے۔ یوں یہ قرارداد وہیں دم توڑ گئی اور اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر پاکستان کی سب سے سنجیدہ سفارتی کوشش ناکام ہوگئی۔

افتخار گیلانی کے مطابق اس واقعے سے چند دن قبل انڈیا میں ایرانی سفیر علی شیخ رضا عطار نے کشمیری رہنمائوں سید علی گیلانی کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ کشمیر ایرانی پالیسی کا مستقل جز ہے۔ تاہم جیسے ہی جینوا میں ایرانی موقف بدلا، حریت رہنما بھی گم سم رہ گئے اور ایرانی سفیر بھی حیرت زدہ تھے۔ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر ایران جو ایک اسلامی ملک اور اسلامی انقلاب کا داعی تھا، اس کے لیے مظلوم کشمیریوں کے دکھ اور ظلم کو نظرانداز کرنے اور ایک غاصب غیر مسلم ملک بھارت کی حمایت کرنے کا کیا جواز تھا؟ اپنے ہمسایہ اور دوست ملک پاکستان کی پیٹھ میں وہ چھرا گھونپ کر بھارت کو بچا رہا تھا۔ وہی بھارت جس نے کبھی اس کے ساتھ وفا نہیں کی۔ یہی وہ ایرانی غلطیاں تھیں جو بانجھ نہیں تھیں۔ جنہوں نے مزید غلطیاں، مزید بلنڈر تخلیق کئے۔

آج کئی بین الاقوامی دفاعی ماہرین کو شبہ ہے کہ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کے باعث ہی ایران کے اندر پرو اسرائیل نیٹ ورک تشکیل پا سکا۔ ایرانی حکومت اور پاسداران نے انڈیا پر اعتماد کیا، ان پر نظر نہ رکھی اور آج اس کی قیمت پورا ایران ادا کر رہا ہے۔ سوال تو ویسے ایک اور بھی پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کرے ایران اس بحران سے بچ نکلے اور اسرائیل و امریکا کو ناکامی ہو۔ اللہ کرے ایسا ہو۔ پھر دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ایرانی قیادت اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے گی؟ اپنے پڑوسیوں سے خوشگوار اور مخلصانہ تعلقات بنائے گی؟ پراکسی وارز سے گریز کرے گی یا پھر پہلی سی غلطیوں کا ارتکاب ہوتا رہے گا؟ اس کا درست جواب وقت ہی دے گا۔