جو مجھے اپنے والد سے سیکھنا چاہیے

کتنی بار ہی اس موضوع پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا اور پھر یہ سوچ کر رکھ دیا کہ جذباتی وابستگی کسی بھی موضوع کا حق ادا کرنے سے مانع ہوتی ہے۔ لیکن زندگی کے ہر اگلے قدم پر لگنے والی ٹھوکر یہ بتاتی ہے کہ زندگی میں بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ والد مرحوم کی بہت سی عادتیں بار بار یاد آتی ہیں اور فکر و احساس کو کچوکے لگتے ہیں کہ اے روسیاہ، تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا۔

سب سے پہلی چیز جو مجھے اپنے والد مرحوم سے سیکھ لینی چاہیے تھی وہ ان کا نظم و ضبط تھا۔ زندگی نظم و ترتیب کے سانچے میں ڈھلی ہو جیسے۔ کپڑے کہاں پر رکھنے ہیں اور کس ڈھنگ سے رکھنے ہیں۔ ٹوپیاں کتنی ہیں، کہاں ہیں اور دھلی ہیں کہ نہیں؟ ان سب چیزوں کا خیال رکھنا۔ جوتے بھی ایک ترتیب سے رکھنا، صاف ستھرے رکھنا، مٹی اور گرد و غبار سے پاک کرکے رکھنا۔ بستر گھر میں ہو، مسجد میں ہو یا تبلیغی مرکز میں، اسے صاف ستھرا رکھنا، اس پر خوشبو لگائے رکھنا اور تکیے کے غلاف کو میل کچیل سے بچائے رکھنا ان کا خاصہ تھا۔ یادش بخیر! برادرم مفتی نعیم شاہد رائیونڈ مرکز میں حاضر ہوئے تاکہ والد محترم سے ملاقات ہو۔ واپسی پر بھائی نعیم شاہدکہنے لگے: چلے کی جماعت میں چلتے ہوئے بھی اپنی شخصیت کا خیال رکھنا، بستر اور کپڑوں کی صفائی ستھرائی کا یوں خیال رکھنا، کبھی دیکھا نہ سنا۔

صفائی ستھرائی ہی نہیں، وقت کی پابندی بھی ایسی مثالی کہ سالہا سال امامت کی اور ایک بار بھی تاخیر کا شکار نہیں ہوئے۔ اپنے کمرے میں دو، تین مختلف گھڑیاں لگارکھی تھیں، صحن میں الگ گھڑی اور غسل خانے میں بھی۔ اپنے کام بھی یوں ہی وقت پر سرانجام دیتے۔ خطبہ جمعہ کی تیاری ہفتے کے دن سے ہی شروع کردیتے۔ جس موضوع پر اگلے جمعہ بیان کرنا ہوتا اس سے متعلق کتاب اپنے تھیلے میں رکھتے، ساتھ میں اپنی ڈائری بھی۔ حاصل مطالعہ ایک خاص ترتیب سے ڈائری میں اترتا جاتا۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ ڈائری بھرتی چلی گئی اور ایک مستند دستاویز کی شکل اختیار کرگئی، جس میں سال بھر کے خطبات جمعہ کا مواد مرتب، مستند اور براہ راست مختلف کتابوں سے کشید کردہ جمع ہوگیا۔ اللہ کرے یہ مجموعہ شائع ہوجائے تو بے شمار خطیبوں کے لیے مرتب و منظم مواد مہیا ہوجائے گا۔ مطالعہ کے دوران کتابوں میں اہم اہم واقعات کے عنوانات لگاتے جاتے، حاصل کلام عبارتوں کو خط کشیدہ کرتے جاتے، ساتھ ہی ساتھ کتاب کے آخر میں اپنے پسندیدہ حوالہ جات کا نیا انڈیکس بناتے جاتے۔ یوں کتاب کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ حاصل مطالعہ بھی محفوظ ہوتا جاتا۔ اپنی سواری کا بھی خاص خیال رکھتے۔ مالی فراوانی کبھی بھی اتنی نہیں ہوسکی کہ کارخرید سکیں، مگر شروع میں ایک عرصہ تک سائیکل رکھی، لیکن اس شان، بان اور آن کے ساتھ کہ دیکھ کر رشک آتا۔ کسی جگہ زنگ نہیں لگا ہوتا، گرد و غبار میں اٹی نہیں ہوتی، کہیں سے چیں چیں کی آواز نہیں آتی اور یوں محسوس ہوتا کہ آج ہی خریدی ہے۔ اس کے بعد تاعمر موٹرسائیکل کا ساتھ رہا، لیکن اس طرح کہ دیکھ کر احساس نہیں ہوتا کہ پرانی ہے۔ جب کبھی کراچی آنا ہوتا اور یہاں کی بائک دیکھتے تو زیر لب مسکرا دیتے۔

مالی نظم و نسق بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ تنخواہ آتے ہی سب سے پہلے صدقے کے پیسے الگ ہوجاتے، اس کے بعد گھر کے راشن کے پیسے الگ کرکے والدہ کو دے دیے جاتے، باقی رقم کے تین حصے ہوجاتے، ذاتی، اجتماعی اور نصرت و اکرام کے لیے۔ اپنے بٹوے کے اندر ہی الگ الگ حصے مقرر تھے، ذاتی رقم الگ ہوتی، جس سے اپنی دوا اور دیگر ضروریات پوری کرتے۔ اجتماعی رقم سے راشن کے علاوہ دیگر گھریلو اخراجات پورے کیے جاتے جبکہ دعوت و تبلیغ کے سلسلے سے جڑے ساتھیوں کے اکرام و نصرت کے لیے الگ فنڈ مختص تھا، جوآنے جانے والی مختلف جماعتوں پر خرچ کیا جاتا۔ اپنی ڈائریوں میں اہم تاریخیں نوٹ رکھتے، اسفار کی کارگزاری لکھتے، تبلیغی جماعتوں کے ساتھ جیبوتی، انڈونیشیا، سعودی عرب، نیپال جانا ہوا اور ان ملکوں کی اہم اہم کارگزاری اور تبلیغی حالات ڈائریوں میں محفوظ کرتے جاتے۔

بچوں والے گھروں میں سب سے اہم مسئلہ چیزوں کی مقررہ جگہ پر موجودگی ہوتا ہے۔ اپنا تو اب تک یہ حال ہے کہ کبھی کوئی چیز ٹھکانے پر نہیں ملتی۔ لیکن والد محترم نے اس مشکل کا یہ حل نکالا تھا کہ اپنے استعمال کی چیز الگ رکھتے، بچوں کی الگ۔ کنگھی، ہتھوڑی، قینچی، چھری، گلاس وغیرہ انفرادی استعمال کی ضروری چیزیں اپنی الگ سے خرید کر رکھی ہوئی تھیں، اس لیے ہماری دست برد سے بچی رہتیں اور ہمیشہ اپنی مقرر کردہ جگہ پر ہی ملتیں۔ گھر میں چھوٹی موٹی مرمت، دیکھ بھال کی ضرورت رہتی ہی ہے، اس کے لیے اپنے اوزار بھی الگ رکھے ہوئے تھے۔ یوں عین موقع پر ہنگامی صورت حال پیدا نہ ہوپاتی۔ جرابیں، کپڑے، ٹوپی، رومال میں اپنا شاہانہ مزاج تھا۔ جرابیں ایک ترتیب سے بیڈ سے لٹکی ہوتیں، ٹوپیاں اور رومال بھی۔ انتخاب ہمیشہ سے ہی لاجواب تھا۔ بیک وقت کئی واسکٹ ہوتیں اور ہر واسکٹ کی جیب میں اپنی ضرورت کی چیزیں دستیاب رکھتے۔ قلم، خوشبو، ڈرائی فروٹ اور الائچی۔ اس لیے انہیں واسکٹ بدلتے ہوئے دوبارہ سے چیزیں تلاش نہیں کرنا پڑتیں۔ کالم کا دامن تنگ پڑرہا ہے جبکہ یادوں کی برات چلی آتی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کے شروع کردہ خیر کے کاموں کو جاری و ساری رکھے۔ آمین ثم آمین