واشنگٹن:امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے واضح کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش تو کر سکتے ہیں لیکن وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی کو اس پیشکش کو قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔
میڈیا بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ یہ ہر فریق کا اپنا حق ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرے۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم ہو، خاص طور پر حالیہ بھارت پاکستان فضائی جھڑپ کے بعد لیکن امریکا دونوں ممالک کے داخلی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی پالیسی نہیں رکھتا۔
ٹرمپ نے کشمیر کو ”ہزار سالہ مسئلہ” قرار دیتے ہوئے ثالثی کی کئی بار پیشکش کی ہے تاہم بھارت اس معاملے کو مکمل طور پر دو طرفہ سمجھتا ہے اور کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔
ٹیمی بروس نے صدر ٹرمپ کی ثالثی میں دلچسپی کو امن کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ ان کا مقصد امریکا کو مضبوط اور دنیا کو پرامن بنانا ہے۔ترجمان محکمہ خارجہ نے کہا کہ تمام ممالک کو اپنے مستقبل کا تعین کرنے کا پورا حق ہے، صدرٹرمپ امن کی کوششوں کیلئے دل بڑا رکھتے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ اسرائیل کے خدشات کے باوجود ایران سے مذاکرات کررہے ہیں، ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے کہ ہمارے پاس ٹرمپ جیسے صدر ہیں۔
ٹیمی بروس نے کہا کہ صدرٹرمپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں، ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیح امریکی اور امریکی مفادات کا تحفظ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ دنیا بھر کے تنازعات سفارتی کوششوں سے حل کرنا چاہتے ہیں، ایران کے ساتھ بھی سفارتی دروازے کھلے رکھنے کا فیصلہ صدر ٹرمپ کا ہوگا۔
پاکستانی نجی ٹی وی چینل نے سوال کیا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں شراکت دار سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، قطر اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان کا کیا کردار ہے؟۔
جواب میں ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ صدر ٹرمپ دنیا کے بہترین ڈیل کرنے والے شخص ہیں، مشرق وسطیٰ کے شراکت دار ممالک ہمارے ارادوں اور مقاصد کو سمجھتے ہیں، تمام تر خدشات کے باوجود ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔