اسرائیل کی مسلسل جارحیت کے جواب میں ایران کے حملے جاری ہیں۔ دونوں جانب سے نہ صرف حملے ہو رہے ہیں بلکہ سخت بیانات کا تبادلہ بھی جاری ہے۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ امریکا براہ راست اس جنگ میں کود پڑے اور بظاہر امریکا بھی ”نہ نہ” کرتے کرتے تہران خالی کرنے کا انتباہ کر چکا ہے۔ ایران نے بھی اس کے ردعمل میں تل ابیب کو خالی کرنے کا پیغام دے دیا ہے۔ دوسری جانب کچھ طاقتیں اور عناصر پاکستان کو بھی اس جنگ میں براہ راست شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مبصرین اور تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ اصل ہدف ایران نہیں، بلکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ سازشوں کا ایک طوفان برپا ہے اور صورتحال ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے کہ اگر ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کر دیا تو یہ تصادم تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
جنگ میں مسلسل شدت آ رہی ہے اور عالمی سطح پر نئی صف بندیاں سامنے آ رہی ہیں۔ اسرائیل اب ایرانی عسکری قیادت کے بعد مذہبی قیادت، یعنی علی خامنہ ای کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ ادھر روس اور چین اس منظرنامے میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار نظر آ رہے ہیں۔ امتِ مسلمہ بھی پہلی بار کسی حد تک ایران کی حمایت پر آمادہ دکھائی دے رہی ہے، کیونکہ ایران کے بعد اگلا ہدف پاکستان ہو سکتا ہے۔ ہندوستان اسرائیلی تعاون سے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی تیاریوں میں ہے۔ ایسے میں سوال صرف سازشوں کو سمجھنے کا نہیں بلکہ درست فیصلے کرنے کا ہے۔ یہ صرف ایران اور اسرائیل کی جنگ نہیں رہی، بلکہ اس کے اثرات پورے خطے بلکہ دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔
اسرائیل کا حالیہ حملہ اس کے گریٹر اسرائیل کے خواب کی طرف ایک قدم محسوس ہوتا ہے، جو ترکی اور سعودی عرب سمیت پورے عالمِ اسلام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اگر کسی نے ابھی تک گریٹر اسرائیل کا نقشہ نہیں دیکھا، تو وہ ایک بار ضرور دیکھ لے۔ ایران کے اندر عسکری قیادت کا اس قدر آسانی سے ختم ہونا، اسرائیلی جاسوسوں کا کردار اور عرب حکمرانوں کا محض مذمتی بیانات تک محدود رہنا بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ یہ صورتحال غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کو مزید بڑھا سکتی ہے اور شاید اسرائیل غزہ کو مکمل طور پر خالی کرانے میں کامیاب ہو جائے۔
ایرانی انٹیلی جنس کی ناکامی اپنی جگہ، مگر جس تیزی سے ایران نے نئی عسکری قیادت مقرر کی اور تل ابیب سمیت اسرائیل پر میزائل حملے کیے، وہ قابل ذکر ہے۔ ان حملوں سے اسرائیل میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے، عمارتیں تباہ ہو رہی ہیں اور آگ بھڑک رہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایرانی جوابی کارروائی کے بعد اسرائیلی اتحادی متحرک ہو چکے ہیں اور امریکا براہ راست جنگ میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔خدشہ ہے کہ ہندوستان بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر کوئی حماقت کر سکتا ہے۔ اسرائیل اور امریکا کی پشت پناہی اسے حاصل ہوگی۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ جنگ پھیل سکتی ہے۔ روس اور چین کے مفادات اب اس میں براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ ایک طرف مودی نے نیتن یاہو سے فون پر رابطہ کیا ہے، تو دوسری جانب صدر پیوٹن نے ایرانی صدر سے بات کر کے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے۔ ہر ملک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے میدان میں اتر رہا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان سمیت مسلم دنیا کو اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی۔ اگر پاکستان اس جنگ میں نیوٹرل رہنا چاہتا ہے، تو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ کل جب بھارت پاکستان سے جنگ کرے گا، تو بہت سے ممالک نیوٹرل ہونے کا بہانہ بنا سکتے ہیں۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اسرائیل ماضی میں بھی ہندوستان کی مدد کے لیے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر چکا ہے اور موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران کے بعد پاکستان کو بھی اسرائیل کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان، چین، روس اور الجزائر نے ایران کی سفارتی حمایت کی اور اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی، جس پر ایران نے شکریہ بھی ادا کیا، مگر اب معاملہ محض سفارتی یا اخلاقی حمایت تک محدود نہیں رہا۔ روس اور چین کی قیادت کیلئے یہ لمحہ فیصلہ کن ہو چکا ہے۔ اگر وہ ایران کی مدد نہیں کرتے تو ان کے طویل المدتی منصوبے ناکام ہو سکتے ہیں۔ دنیا توانائی، خوراک اور سلامتی جیسے مسائل سے دوچار ہونے والی ہے اور امریکا اپنے ناجائز بچے اسرائیل کے ذریعے پوری دنیا کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ایران کے اندر کیا ہوتا ہے؟ کیا اسرائیل ایرانی قیادت کو مزید ختم کر پائے گا؟ یا ایران کے حملے اور شدید ہوں گے؟ اس وقت کچھ بھی یقینی طور پر کہنا قبل از وقت ہے۔ خطے کے ہر ملک کو اب اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کھل کر سامنے آنا ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی غالب آتے ہیں یا روس، چین اور ایران کی مزاحمتی قوتیں۔ ایران اسرائیل جنگ کا دائرہ پاکستان کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ آخر میں، سوشل میڈیا پر بھی احتیاط لازم ہے، کیونکہ جنگ میں سب سے پہلے سچ مارا جاتا ہے۔