بجٹ 2025-26 ء اور ملکی معیشت

سال 2025ـ26ء کا وفاقی بجٹ 17573 ارب روپے کے حجم کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اعدادوشمار کے پیمانے پر تو یہ ایک ‘ہیوی ویٹ’ بجٹ ہے جس کی مثال پاکستان کی مالیاتی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ تاہم اس بجٹ کے بوجھ تلے عوام کی کمر مزید جھک گئی ہے۔ مہنگائی کے شدید دباؤ کے باوجود سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں محض 10فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا، جو موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں ناکافی ہے۔ پیٹرول، بجلی، مکانوں کے کرایے، اسکول فیسیں اور ٹرانسپورٹ کے کرائے سب میں ہوش رْبا اضافہ ہو چکا ہے، مگر تنخواہ دار طبقہ پھر بھی محرومی کا شکار ہے۔ بجٹ میںگاڑیاں مزید مہنگی کر دی گئی ہیں اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے متبادل کے طور پر لگائے گئے سولر پینلز پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ جب عوام نے بجلی کی غیرمستقل فراہمی کے سبب گھروں میں سولر لگوانا شروع کیا تو کچھ حد تک سکون ملا، مگر اب ان پر ٹیکس لگاکر یہ سہولت بھی مہنگی بنا دی گئی ہے۔

آن لائن کاروبار پر بھی ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے۔ یہ قدم نہایت قابلِ افسوس ہے، کیونکہ موجودہ حالات میں جب سرکاری ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور نجی شعبہ بھی صنعتی جمود کا شکار ہے، تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے آن لائن روزگار ایک امید کی کرن تھا۔ حکومت کو ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی، نہ کہ ان پر مزید بوجھ ڈالتی۔ فری لانسنگ، ای کامرس اور سوشل میڈیا کے ذریعے آمدن کے ذرائع دنیا بھر میں روزگار کے نئے در کھول رہے ہیں، سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اس شعبے میں ترقی ہو اور ملک زر مبادلہ کمائے، جبکہ پاکستان میں ان پر ٹیکس لگا کر ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ یہ تو ایسا شعبہ ہے کہ اسے کم خرچ بالانشین کہنا چاہیے۔ یہ باہر سے کھینچ کھینچ کر ڈالر پاکستان لانے کا بہترین ذریعہ ہے، اس کی مشکیں کسنا نہایت غیر دانشمندانہ عمل ہے۔

بجٹ میں ودہولڈنگ ٹیکس اور ایڈوانس ٹیکس کے نفاذ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی اولین ترجیح صرف اور صرف پیسہ اکٹھا کرنا ہے۔ معاشی ترقی، روزگار کی فراہمی اور صنعتی احیاء پر توجہ دینے کے بجائے آئی ایم ایف کے دباو میں آ کر اعداد و شمار کا ہدف پورا کرنا ہی مقصد بنا لیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بجٹ کا جھکاؤ صرف ایک جانب ہے، اور یہ کسی بھی طور متوازن بجٹ نہیں کہلایا جا سکتا۔یکم جولائی 2025ء سے نافذ ہونے والا یہ بجٹ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ اس میں نہ تو بے روزگار نوجوانوں کا کوئی حصہ رکھاگیا ہے، نہ ہی محنت کش طبقے کی آواز، اور پنشن یافتہ بزرگوں کی شبیہ تو گویا دھندلا چکی ہے۔ جب ایک طرف دودھ، ادویات اور روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہوں، اور دوسری طرف پنشن میں صرف 7فیصد اضافہ کیا جائے، تو پنشنر حیرت میں مبتلا نہیں ہوں گے کہ دوا خریدیں یا کھانا کھائیں؟ دوسری طرف سینیٹرز کی تنخواہوں میں 50فیصد اضافہ کر کے حکمران طبقہ اپنی فیاضی کا ثبوت بھی دے رہا ہے۔ یہ طبقاتی تضاد بجٹ کے انصاف پر سوالیہ نشان ہے۔

بجٹ میںاقتصادی ترقی کی شرح کا ہدف 4.2 فیصد رکھا گیا ہے، جس کے لیے سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں میں تیزی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اندر بیرونی سرمایہ کاری مسلسل زوال کا شکار ہے اور ملک کے اندر بھی مقامی کاروبار کا ماحول بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیے بغیر ترقی کا یہ ہدف صرف کاغذوں پر ہی مکمل ہو پائے گا۔ محصولات کا ہدف 14131ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، جو رواں مالی سال سے 18.7فیصد زیادہ ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے ایف بی آر، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اگر ٹیکس چوری کی روک تھام سنجیدگی سے نہ کی گئی، تو یہ ہدف بھی محض ایک دعویٰ بن کر رہ جائے گا۔ اس وقت تقریباً 25سے 30فیصد ٹیکس کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے، جس کا خاتمہ ضروری ہے۔

ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1000ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ لیکن اگر ان منصوبوں کے تحت محض حکومتی ارکان کی خوشنودی، ٹھیکیداری نظام کی خامیاں اور کرپشن برقرار رہی تو یہ فنڈز بھی پہلے کی طرح ضائع ہو جائیں گے۔ ماضی میں 118منصوبے بغیر کسی فائدے کے ترک کر دیے گئے اور اربوں روپے ضائع ہو گئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعد میں انہیں غیر ضروری قرار دے دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی منصوبہ ابتدا سے غیر ضروری ہوتا ہے؟ یا اسے غیر مؤثر بنا دیا جاتا ہے؟اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ بجٹ عوام کو سکھ کا سانس لینے دے گا یا نہیں؟ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں کے بجائے دفاع اور انتظامی امور پر توجہ دی گئی ہے۔ صحت کے بجٹ میں کمی کر کے عوام کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ تعلیم کا شعبہ بھی کٹوتیوں کی زد میں ہے جبکہ ملک میں دو سے ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں، ایسے میں تعلیم پر اخراجات کم کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ تعلیم کے فروغ کے لیے ہمہ جہت اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ایک قابلِ عمل حل یہ ہو سکتا ہے کہ دینی مدارس کو حکومت کی جانب سے باقاعدہ فنڈنگ کی جائے تاکہ وہ بھی اپنے موجودہ نظام کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ عصری تعلیم کے شعبے قائم کرکے بچوں کو دینی اور میٹرک سطح کی تعلیم دے سکیں۔ مدرسوں کے ساتھ مشاورت کے ذریعے ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے جس میں علاقے کے بچوں کو قریبی مدارس سے روزانہ کی بنیاد پر عصری تعلیم بھی دی جائے۔ بہت سے مدارس کے پاس جگہ اور بلڈنگ موجود ہوتی ہے مگر اسکول کا نظام چلانے کے لیے فنڈ نہیں ہوتے۔ انہیں فنڈ مہیا کرکے اسکولنگ سسٹم بنانے میں مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔

اِس بجٹ میں بیوہ پینشنر کے ساتھ ظلم کیا گیا اور تنخواہ دار طبقہ بھی پس کر رہ گیا ہے کیونکہ مہنگائی کے علاوہ بچوں کے اخراجات فیس وغیرہ اور مکان کے کرایوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ خاص طور پر پینشن لینے والا بوڑھا شخص جسے اب صحت کی سہولیات کی امید بھی ختم ہوگئی ہے۔ دوائیں مہنگی ہوکر رہ گئی ہیں، اس کے علاوہ بتایا گیا کہ شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پینشن کی مدت 10سال کر دی گئی ہے۔ معاشرے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کسی سرکاری ملازم کی شادی شدہ بیٹی بیوہ ہو جاتی ہے تو اس کا آخری ٹھکانہ ماں باپ کا گھر ہوتا ہے۔ جہاں اکثر بیوہ کی پینشن پر بڑی مشکلوں سے وہ بھی گزارہ کرتی ہے اور ماں کے انتقال کے بعد پینشن بیوہ بیٹی کو منتقل کردی جاتی ہے، لیکن اب اسے 10سال سے زیادہ جینے کا حق حکومت نے چھین لیا ہے۔ 10سال بعد وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرے گی؟ لہٰذا اسے فلاحی بجٹ کیسے کہہ سکتے ہیں۔یہ بجٹ ملکی معیشت کے لیے کتنا کارآمد ہوگا؟ قومی اسمبلی مختلف ترامیم ہوسکتی ہیں۔ پھر اس کے اصل خدوخال واضح ہوں گے اور معلوم ہوگا کہ سسکتی ہوئی معیشت کے لیے یہ بجٹ کتنا کارآمد ہوسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے معلوم ہورہا ہے کہ اصلاحی اقدامات پر زور دیا جائے گا۔ ایسے میں وہ اگر ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنرز کی پینشن میں مزید اضافہ کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے فلاحی بجٹ کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔