افغانستان، چند مزید غلط فہمیاں!

ملامحمد عمر اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد روپوش ہوگئے تھے۔ کچھ عرصہ تک وہ طالبان قیادت سے رابطے میں رہے لیکن آخری چھ سات سالوں میں وہ بالکل خاموش ہو گئے تھے۔ ان کے میزبان کا کہنا تھا وہ طالبان قیادت سے اس قدر مایوس ہو گئے تھے کہ ان سے رابطہ تک نہیں کرتے تھے۔ ان کی دلچسپی اس حد تک ختم ہو گئی تھی کہ وہ ریڈیو یا کسی اور ذریعے سے خبریں تک نہیں سنتے تھے۔ ان کا معمول محض تلاوت اور ذکر و اذکار تھا اور اسی خاموشی کے ساتھ وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آج لوگ سمجھتے ہیں موجودہ طالبان حکومت ملا محمد عمر کے منہج اور فکر کی وارث ہے۔ یہ تاثر سرے سے غلط ہے۔ وہ طالبان جنہوں نے ملامحمد عمر کے ہاتھ پر بیعت کر کے شریعت کے نفاذ کا عہد کیا تھا،ایسا لگتا ہے کہ آج وہ مفادات کے اسیر بن کر رہ گئے ہیں۔ جنہیں ملا محمد عمر ایمان، جہاد اور اخلاق کا استعارہ سمجھتے تھے وہ اقتدار، مفاد اور خودنمائی کے خوگر نکلے۔

یہ بھی غلط فہمی ہے کہ افغانستان دور حاضر میں اسلامی نظامِ عدل کا ماڈل بن گیا ہے یا بن سکتا ہے۔ وہاں کے فیصلوں پر قرآن و سنت سے زیادہ قبائلی سوچ اور روایات غالب ہیں۔خواتین کی تعلیم یہاں تک کہ بنات کے مدارس پر بھی پابندی اس کی واضح مثال ہے۔ ملا عمر کا خواب ایک منظم اسلامی ریاست کا تھا مگر موجودہ طالبان نے اسے قبائلی امارت میں بدل دیا ہے جہاں قانون کی بنیاد فہمِ دین نہیں بلکہ بندوق کا زور ہے۔ ایک غلط فہمی یہ ہے کہ افغان عوام طالبان کے حامی ہیں۔ یہ بات بھی کلی طور پر درست نہیں۔ حقیقت میں افغان عوام کی اکثریت طالبان کے طرزِ حکومت سے مایوس اور تنگ ہے۔ خوف اور غربت نے زبانیں بند کر رکھی ہیں۔ انٹر نیٹ پر پابندی لگانے کے حالیہ ”فرمان” کی وجہ بھی یہی بتائی جا رہی ہے کہ وہاں کے حکمران عوام بالخصوص نوجوان طبقے سے خوفزدہ ہیں۔ وہ ان کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں۔

ایک غلط فہمی یہ ہے کہ افغانستان وسطِ ایشیا کے لیے گیٹ وے ہے۔ یہ جملہ جغرافیائی لحاظ سے درست ہو سکتا ہے مگر عملی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ افغانستان گیٹ وے نہیں بلکہ ہمیشہ خطے میں عدم استحکام کا منبع رہا ہے۔ افغانستان نے ہمیشہ ہمسایہ ممالک پر حملے، دہشت گردی، اسلحے کی اسمگلنگ اور منشیات کا بازار گرم رکھا ہے۔ پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان سب کسی نہ کسی سطح پر افغان بحران کے اثرات بھگتتے رہے ہیں۔ یہ بھی غلط فہمی ہے کہ افغانستان میں مذہبی تعلیم عام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان افغانستان میں مذہبی تعلیم کا بھی کوئی جامع اور مضبوط نظام نہیں بنا سکے ہیں۔ پاکستان کے مدارس کا نظام وہاں سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ ایک غلط فہمی یہ ہے کہ افغان حکومتیں ہمیشہ آزاد اور اپنے فیصلے خود کرتی رہی ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ ہر حکومت کسی بیرونی طاقت کی پراکسی کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔ کبھی روس، کبھی امریکا، کبھی ایران، کبھی قطر۔ کوئی بھی افغان حکومت ایسی نہیں رہی جس نے بیرونی اثرات سے آزاد رہ کر فیصلہ کیا ہو۔ افغان حکومتیں ہمیشہ طاقتور کے زیرِ سایہ پروان چڑھی ہیں۔

ایک غلط فہمی یہ ہے کہ افغان عوام غربت کے باعث منشیات کا کاروبار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں منشیات کی معیشت حکومتی اہلکاروں، طالبان کمانڈروں اور جنگی گروہوں کی سرپرستی میں پروان چڑھتی ہے۔ افیون، ہیروئن اور منشیات کی دیگر مصنوعات افغانستان کی خفیہ معیشت کا ستون بن چکی ہیں۔ ریاست کے پاس کوئی مستحکم معاشی ڈھانچہ نہ ہو تو غیرقانونی تجارت اور منشیات ہی ریاستی مشینری کا سانس بن جاتی ہیں اور یہی آج کے افغانستان کا المیہ ہے۔ یہ بھی مغالطہ ہے کہ افغان ہمیشہ اپنی آزادی کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی نہیں بلکہ کسی اور کی غلامی کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ کبھی روس کے خلاف امریکی بندوق سے، کبھی امریکا کے خلاف روسی اسلحے سے۔ افغان جنگ ہمیشہ کسی نہ کسی طاقت کے مفادات کے گرد گھومتی رہی ہے۔ افغانستان کا مسئلہ جغرافیائی ہے یہ بھی سطحی غلط فہمی ہے۔ افغانستان کا مسئلہ جغرافیہ نہیں بلکہ خودفریبی ہے۔ وہ خود کو فاتح سمجھتے ہیں جبکہ ہر جنگ میں اپنے مستقبل کو ہارتے ہیں۔ ایک صدی سے زائد عرصے میں افغانستان نے لاکھوں جانیں قربان کیں مگر حاصل صرف ماضی کا نوحہ ہے۔ نہ امن، نہ ترقی، نہ عزت۔ موجودہ طالبان حکومت کی پائیداری پر یقین بھی ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ حکومت دراصل ایک وقتی بندوبست ہے جسے بین الاقوامی تنہائی، معاشی بدحالی اور داخلی تضادات کسی بھی لمحے زمین بوس کر سکتے ہیں۔ آج بھی دنیا کے اکثر ملکوں نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ طالبان کے پاس نہ کوئی واضح خارجہ پالیسی ہے، نہ معیشت کی سمت، نہ عوامی تائید۔ ان کے پاس صرف خوف کا ہتھیار ہے اور خوف ہمیشہ نہیں رہتا۔

طالبان کے اندر مذہبی اتفاقِ رائے موجود ہے، یہ بھی ایک خوش فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اندر دیوبندی، سلفی اور قبائلی نظریات کی کشمکش جاری ہے۔ ہر گروہ دوسرے کو منحرف سمجھتا ہے۔ یہ تضاد مستقبل میں ایک نئی خانہ جنگی کو جنم دے سکتا ہے جو شاید ماضی سے بھی زیادہ خونی ہو۔ یہ سمجھنا کہ طالبان خواتین کی تعلیم یا ان کے حقوق کے مخالف نہیں ایک خود ساختہ فریب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان عورت کو انسان نہیں سمجھتے۔ وہ اس کی تعلیم کو معاشرتی خطرہ اور اس کی آزادی کو مذہبی انحراف قرار دیتے ہیں جبکہ مذہب نے عورت کو عقل، رائے، مشورہ اور کردار کی برابری عطا کی ہے۔ طالبان کا نظام دراصل قبائلی غیرت کا دوسرا نام ہے۔ افغان معاشرے کو متحد اور ایک قوم سمجھنا بھی غلط تاثر ہے۔ افغانستان ہمیشہ نسلی تقسیم، قبائلی رقابت اور اقتدار کی کشمکش کا شکار رہا ہے۔ پشتون، تاجک، ہزارہ اور ازبک کبھی ایک قوم نہیں بنے اور نہ موجودہ طالبان انہیں ایک قوم بنا سکتے ہیں۔ قومی وحدت کی بجائے وہاں طاقت کی مرکزیت ہمیشہ کسی مخصوص نسل کے ہاتھ میں رہی ہے جس نے باقی سب کو حاشیے پر رکھا ہے۔

ان تمام غلط فہمیوں کو سامنے رکھ کر تصویر مکمل کی جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ افغانستان کی تباہی کا سبب بیرونی طاقتیں نہیں بلکہ خود افغانوں کی اپنی تنگ نظری، فکری جمود، خود فریبی اور غور وفکر اور تدبر سے دوری ہے۔ انہوں نے ہر بار دشمن کو باہر تلاش کیا مگر کبھی اپنے اندر جھانکنے کی ہمت نہیں کی۔ افغانستان نے واقعی کئی سلطنتوں کو انگیج کیا ہے مگر اپنی وحدت، اپنی شناخت اور اپنے مستقبل کا اصل قبرستان وہ خود بنا ہے۔ موجودہ افغانستان اور طالبان حکومت بھی مذہبی ریاست کے نام پر سیاسی تضادات، اخلاقی زوال اور فکری جمود کا استعارہ ہے۔ یہ امارت شاید کچھ وقت کے لیے مزید قائم رہے مگر یہ نظام اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ تاریخ کا قانون یہی ہے کہ جو قوم اپنے اندر کے باطل کو نہیں پہچانتی اسے کسی بیرونی حملہ آور اور دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ خود اپنے تضادات سے بکھر جاتی ہے اور موجودہ طالبان اور افغانستان اس انجام کے دہانے پر کھڑے ہیں۔