راستہ بھٹکانے والے

جدید ٹیکنالوجی ایسی ناخلف اورگستاخ اولاد ہے جو جوان ہوتے ہی اپنے ماں باپ کو گھر سے نکال پھینکتی ہے۔ پھر یہ کہ ٹیکنالوجی کی اولاد چند سال میں جوان بھی ہو جاتی ہے۔ ہر ایجاد دو تین سال بعد پرانی ہونے لگتی ہے اور اس سے بہتر نسل آ جاتی ہے۔ پھر بھی کوئی مجھ سے دورِ حاضر کی تین بہترین ایجادات چننے کو کہے تو بلا تامل دو قدرے پرانی اور ایک قدرے نئی ایجاد منتخب کروں گا۔ ایک تو ایئر کنڈیشنر اور دوسرا موبائل فون، اگرچہ یہ اب پرانی ہو چکیں، تاہم یہ دونوں اب نسلیں بدل رہی ہیں۔ تیسری کے بارے میں جان کر آپ کو ذرا حیرت ہو گی لیکن میں بلاجھجک نیوی گیشن سسٹم یعنی سیٹلائٹ رہنمائی کے نظام کو چن لوں گا جو ہمیں آج کل کسی بھی پتے پر پہنچانے میں کسی بھی انسان سے زیادہ مددگار ہے۔ یہ رہنمائی بھی اگرچہ بھٹکا دینے پر پوری طرح قادر ہے لیکن گمراہ کر دینے کے فن میں انسان کو دور دور تک نہیں پہنچتی۔ شہروں میں اب زندگی اس رہنمائی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ باقی دونوں کے فضائل پر بات کسی اور وقت سہی، اس وقت جدید ترین رہنما کی بات کر لیتے ہیں۔

صدیوں پیچھے کاروانوں اور راہبروں کے زمانوں میں نہ جائیں، صرف پینتیس سال پیچھے چلے جائیں، یعنی 1990ء میں۔ نہ آپ کے پاس موبائل ہے نہ رہنمائی کا کوئی نظام۔ اپنے شہر میں یا کسی اجنبی شہر میں کسی عزیز کے گھر مبارک دینے کے لیے ضروری پہنچنا ہے کہ اس کے ہاں ماشاء اللہ بیٹا ہوا ہے۔ آپ کے پاس صرف مکان، گلی اور محلے کا پتا ہے۔ کئی مرتبہ تو وہ بھی نہیں۔ آپ کو علاقہ بہرحال معلوم ہے۔ اگر خوش قسمتی سے آپ کے اور اس عزیز کے گھر میں فون ہے تو آپ اچھی طرح راستہ سمجھ لینے کے بعد نکلتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں بتائی ہوئی تفصیلات حافظے سے کھسکنے لگتی ہیں۔ اگر وہ گھر نامعلوم علاقے میں ہے تو پہلا مسئلہ اس علاقے میں پہنچنے کا ہے۔ کچھ اندازے، کچھ لوگوں سے پوچھتے پوچھتے آپ اس علاقے میں کسی طرح پہنچ گئے۔ بڑی سڑک پر کسی مشہور اسکول، بینک یا دکان کی نشانی تو آسانی سے مل جاتی ہے لیکن اصل امتحان اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ گنجان علاقہ ہے اور ٹیڑھی میڑھی بے ترتیب گلیاں۔ اتنا بڑا علاقہ، اتنی سڑکیں، اتنی گلیاں، اتنے مکانات۔ ان میں مطلوب گھر کیسے تلاش کریں۔ اب آپ کے حافظے میں وہ تفصیلات گڈمڈ ہو چکی ہیں جو صاحبِ خانہ نے بتائی تھیں۔ وہ جو قصائی کی دکان بتائی تھی وہ پہلے آتی تھی یا کھمبے کے بعد؟ اور گلی کی نکڑ پر جو ٹیڑھا کھمبا بتایا تھا وہ تو نظر نہیں آ رہا۔ آپ ایک جگہ رک کرگپ شپ کرتے، دو چار لوگوں کو گھر کے مالک کا نام بتاتے ہیں۔ وہ آپ سے مخاطب ہونے کے بجائے آپس میں مکالمہ شروع کر دیتے ہیں۔ ”یار! وہ شوکے کے گھر کے سامنے والا گھر نہ ہو؟” ”نہیں! وہ نہیں ہو سکتا۔ وہ تو الطاف بھا جی کا گھر ہے”۔ ”میرا خیال ہے شیدے سری پائے والے کی دکان سے تین گلیاں چھوڑ کر اگلی گلی میں ہوگا، جدھر سنیارا بھی رہتا ہے”۔ ایک دم وہ آپ سے مخاطب ہوتا ہے۔ ”بھاجی! آپ ایسا کریں سیدھے چلے جائیں، دائیں ہاتھ تیسری گلی میں مڑ جائیں۔ بالکل سیدھے جاتے رہنا۔ آگے شیدے سری پائے والے کی ہٹی ہے۔ ادھر سے تین گلیاں چھوڑ کر چوتھی گلی میں مڑ جائیں۔ اس میں وہ گھر ہونا چاہیے”۔ آپ کو شبہ ہونے لگتا ہے کہ راستہ ٹھیک بتایا ہے یا نہیں۔ ”اس گلی کی نکڑ پر ٹیڑھا کھمبا ہے؟” ”نہیں! ٹیڑھا کھمبا تو نہیں۔ پھر وہ کوئی اور گلی ہوگی، معاف کرنا، ہمیں نہیں پتا۔ اگلے چوک میں کسی سے پوچھ لیں”۔

آپ ان گلیوں میں ٹکریں مارتے پھرتے رہتے ہیں اور گھر آپ کو نہیں ملتا۔ موبائل آ پ کے پاس ہے نہیں کہ گھر والے سے رابطہ کر لیں۔ ایک سٹور پر رک کر اس سے فون کرنے کی درخواست کرتے ہیں، وہ انکار کر دیتا ہے تو کسی اور سٹور یا پی سی او تلاش کرتے ہیں۔ ہزار دقت سے آپ گھر والے سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ حیران ہوتا ہے کہ آپ کس غلط جگہ پہنچ گئے ہیں۔ میں نے تو آپ کو بالکل سیدھا رستہ بتایا تھا۔ یہ سیدھا رستہ، جسے آپ کئی گھنٹے سے بھگت رہے ہیں، مزید تگ ودو اور مزید کالوں کے بعد اس گھر پر پہنچاتا ہے۔ آپ نومولود بیٹے کی مبارک دیتے ہیں۔ ایک نوٹ اس کے ماتھے پر رکھتے ہیں اور پندرہ بیس منٹ رک کر واپس روانہ ہوتے ہیں۔ اب ان پیچ در پیچ گلیوں سے اپنے گھر تک پہنچنا ایک الگ مرحلہ ہے۔ اس کے لیے بھی رہنمائی درکار ہے۔

یہ جو نقشہ میں نے کھینچا، ہرگز فرضی نہیں ہے۔ یہ پینتیس سال پہلے کیا، آج بھی روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔ یقین کیجیے پتا سمجھانا بھی ایک فن ہے۔ اور گمراہ کرنا ایک الگ فن۔ زیادہ لوگ دوسرے فن کے ماہر ہوتے ہیں۔ ویسے تو ہر شہر میں اس فن کے استاد موجود ہیں لیکن لاہوری راستہ غلط بتانے اور غلط پوچھنے، دونوں کے امام ہیں۔ روز یہ مکالمہ ہوتا ہے۔ ”اچھا ملتان روڈ پر ہیں؟ بس سیدھے آتے جائیں۔ ایک کلو میٹر کے بعد یوٹرن لے کر چوتھی گلی میں مڑ جائیں۔ آگے نائی کی دکان کے ساتھ میری فرنیچر کی دکان ہے”۔ ایک تو پتا واضح نہیں بتائے گا، دوسرا بندہ یہ نہیں پوچھے گا کہ ملتان روڈ پر کس طرف سے آ رہے ہیں؟ رخ کس طرف ہے؟ سمن آباد موڑ کی طرف یا ٹھوکر نیاز بیگ کی طرف؟ اور پوچھنے والے کا بھی کمال دیکھیے کہ وہ بھی نہیں بتائے گا کہ اس کا رخ ہے کس طرف ؟ چنانچہ خوب ٹھوکریں کھانے اور آدھادن ضائع کرنے کے بعد جب دکاندار کے پاس پہنچتاہے تو وہ لڑائی کے لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے اور آنے والا بھی تپا ہوا ہوتا ہے۔ دونوں کو خیال نہیں آتا کہ ایک دفعہ آنے کا راستہ، رخ اور پتا ٹھیک سے بتا دیا جائے یا پوچھ لیا جائے تو کتنے گھنٹے اور کتنی لڑائیاں بچ سکتی ہیں۔ دکاندار سمجھتا ہے کہ اتنا آسان پتا تو ہے، میں روز آتا جاتا ہوں، مجھے تو کوئی دقت نہیں ہوتی۔ آنے والا سمجھتا ہے کہ اس نے پتا غلط بتایا اور میرا وقت خراب کیا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہی سمجھتے ہیں۔ ایک پریشان آدمی کو پتا درست اور واضح بتانا کون سا بڑا کام ہے لیکن ہم یہ بھی ٹھیک نہیں کرتے۔

قریب 18سال پہلے کی بات ہوگی، میں برمنگھم (یو کے) میں ایک دوست کی گاڑی میں بیٹھا تھا اور ہمیں لیڈز جانا تھا۔ اس نے ایک اسکرین سی ڈیش بورڈ پر لگا کر آن کر دی۔ ایک خوش آواز بی بی نے راستہ بتانا شروع کر دیا۔ میں حیران ہوا کہ یہ کیا مزے کی چیز ہے۔ اس وقت پاکستان میں نیوی گیشن سسٹم نہیں آیا تھا۔ موبائل فونز میں بھی یہ سہولت دنیا بھر میں کہیں نہیں تھی لیکن جلد ہی پاکستان میں بھی جی پی ایس آ گیا۔ پہلے گاڑیوں میں اور پھر موبائل میں۔ اب یہاں ہر موبائل فون میں خوش آواز بی بی بولتی ہے، البتہ یہ بی بی بھی کئی دفعہ ایسے چکر دیتی ہے کہ دل چاہتا ہے اس کا چہرہ سامنے آ جائے تاکہ مکا مار سکیں، لیکن پھر بھی یہ انسانوں سے کم گمراہ کن ہے۔ اب کسی کے پاس پہنچنا ہو تو پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ لوکیشن بھیجیں، یا خود گوگل سے لوکیشن معلوم کر لی جاتی ہے۔ لوکیشن مل گئی تو آپ گویا اس میزبان کے گمراہ کن بیانات اور گنجلک پتے سے کافی حد تک محفوظ ہو گئے۔ اب اگر نیوی گیشن بی بی بھٹکا بھی دے تو زیادہ نہیں بھٹکائے گی۔ یہ جو گاڑیوں اور موبائلوں میں جی پی ایس ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں چند سینٹی میٹرز سے چند میٹرز تک کا فرق ہو سکتا ہے۔ یہ بھی عام افراد والے نظام میں! عسکری اور دفاعی نظاموں میں زیادہ سے زیادہ ایک ملی میٹر کا فرق ممکن ہے۔ بہت سے سسٹم یہ سب نظام بیک وقت استعمال کر سکتے ہیں۔

اس وقت سیٹلائٹس کے ذریعے رہنمائی کے جو مشہور نظام ہیں، ان میں امریکی جی پی ایس کے علاوہ روس کا گلوناس (GLONASS)، چین کا بیڈو (BeiDOU)، یورپ کا گیلیلیو (Galileo) اور جاپان کا کیو زیڈ ایس ایس (QZSS) زیادہ مشہور اور جدید ترین ہیں۔ لیکن کب تک؟ ٹیکنالوجی ایسی ناخلف، گستاخ اولاد ہے جو جوان ہوتے ہی اپنے ماں باپ کو گھر سے نکال پھینکتی ہے۔ اولاد کا انتظار کیجیے۔