افغانستان کے حوالے سے یہ سات نکات یاد رکھیے گا

افغانستان کے حوالے سے مذاکرات کے مختلف ادوار چلتے رہیں گے، کچھ نہ کچھ اوپر نیچے بھی ہوتا رہے گا۔ یہ ایشو بڑا پیچیدہ ہے اور اتنا جلد حل ہونے والا نہیں۔ اس پر مباحث بھی چلیں گے۔ پاکستان اور افغان امور کے حوالے سے یہ چند اصول یا نکات ایسے ہیں جنہیں اچھی طرح جان اور سمجھ لیا جائے، کیونکہ ان کے بغیر آپ الجھن اور کنفیوژن کا شکار رہیں گے۔ یہ بات جان لیں افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تنازعات اور ایشو آج سے نہیں بلکہ ہماری قومی تاریخ کے پس منظر میں یہ سمجھ لیں صرف پانچ سات فیصد عرصہ ہی پرامن اور خوشگوار گزرا ہے، باقی سب کھینچا تانی اور کشیدگی کی نذر ہوا۔

پاکستان کی آزادی کے فورا بعد ہی کابل نے پشتونستان کا مسئلہ اٹھایا اور ڈیورنڈ لائن کو ماننے سے انکار کیا۔ میں اعداد وشمار پیش کر کے قارئین کو بور نہیں کرنا چاہتا۔ بس یہ سمجھ لیں کہ ظاہر شاہ، سردار داد دونوں پاکستان مخالف رہے۔داؤد کے دور میں باجوڑ پر باقاعدہ افغان فوج نے حملہ بھی کیا۔ پھر ترکئی، امین، کارمل ادوار میں تو کھلی مخالفت تھی۔ روس کے جانے کے بعد افغان کمانڈر آپس میں لڑتے رہے اور پاکستان پر الزام لگاتے رہے۔ پھر ملا عمر کی حکومت آ گئی، چار پانچ سال سکون کے ملے۔ پھر امریکی 20سالہ دور میں بھی معاملات خراب رہے۔ طالبان کی دوسری حکومت آئی تو امید تھی کہ چیزیں بہتر ہوں گی، مگر صورتحال پہلے سے بھی ابتر ہوچکی ہے۔ اس میں سمجھنے کی باتیں دو ہیں۔ پہلی یہ کہ ان تعلقات کی خرابی میں کسی ایک پاکستانی حکمران یا کسی فوجی سربراہ یا اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل نہیں۔

1947 یا 49میں کون سا فوجی حکمران تھا پاکستان میں؟ داؤد نے تو بھٹو دور میں باجوڑ پر حملہ کیا۔ سچ یہ ہے کہ لیاقت علی خان سے ایوب خان اور بھٹو اور پھر ضیائ، بے نظیر، نواز شریف، مشرف، زرداری، عمران خان، شہباز شریف وغیرہ، ان سب کے ادوار میں حالات بگڑے ہی رہے۔ اس لیے ہمیں خواہ مخوا اپنے آپ کو قصور وار نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ ہمارے سب حکمران تو خراب نہیں ہوں گے، کچھ تو افغان حکمرانوں کا بھی قصور ہوگا؟ دوسری بات یہ کہ اس پوری تاریخ کو دیکھتے ہوئے سمجھ آتی ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں ایک دوست حکومت لانے کے لیے دلچسپی لی تو وہ قابل فہم اور فطری تھی۔ مزید یہ کہ پاکستان اپنی اس مغربی سرحد کو پرامن رکھنے میں کس قدر انٹرسٹڈ ہوگا؟ یہاں لڑائی اور کشیدگی پاکستان کو سوٹ ہی نہیں کرتی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات اور مسائل کے ذمہ دار افغان اشرافیہ، حکمران یا مختلف دھڑے رہے ہیں۔ انفرادی طور پر بہت سے ایسے لوگ وہاں ہیں جو پاکستان کے مخالف نہیں بلکہ وہ تعریفی الفاظ کہیں گے۔ اس لیے ہمیں پوری افغان قوم یا ملت کو مطعون نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ناانصافی اور حکم کیخلاف ہے۔ پوری افغان قوم کواحسان فراموش کہنا مناسب نہیں۔ غصہ آئے تب بھی شائستگی اور ضبط سے کام لیا جائے۔ جس گروہ سے شکایت ہو، اس پر تنقید کرنی چاہیے۔ ویسے بھی افغانستان کروڑوں لوگوں پر مشتمل ملک ہے۔ ان کے ساتھ گزارا ہی کرنا پڑے گا۔ افغانستان میں جو بھی گروپ یا دھڑا برسراقتدار ہو، ہمیں ان کے ساتھ معاملات کرنا ہی پڑتے ہیں۔ اس لیے اس کی گنجائش رکھنی چاہیے۔

چند دن قبل سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور فور اسٹار جنرل ریٹائر احسان الحق کی ایک تقریر وائرل ہوئی۔ جنرل احسان نے اس میں کہا کہ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے ہمیشہ ضبط اور تحمل کرنے کی پالیسی رہی ہے۔ انہوں نے اسے اسٹریٹجک پیشنس کا نام دیا۔ جنرل احسان کا کہنا تھا کہ اب وہ صبر کم ہو رہا ہے، مگر ہمیں احتیاط کرنی چاہیے، عجلت میں کوئی بڑی غلطی نہ کر بیٹھے۔ انہوں نے مثال دی کہ ہم آج تک یہ نہیں بھولے کہ افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستانی کی مخالفت کی تھی۔ تب کی افغان حکومت کی اس غلطی کو آج تک نہیں مٹایا جا سکا۔ جنرل احسان کا کہنا تھا کہ آج اگر ہم تجاوز کریں گے تو کل پچاس سال بھی ہمیں جتایا جائے گا کہ پاکستانی طیاروں نے کابل پر بمباری کی تھی۔ یہ ایک محرم راز اور انتہائی اعلی سطح پر کام کرنے والے سابق ملٹری فسر کی بروقت تنبیہ اور نصیحت ہے۔

پاکستان کیا کر سکتا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ عسکری اعتبار سے پاکستان اور افغانستان کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ عددی اکثریت کے علاوہ بھی میزائل سسٹم، اینٹی میزائل سسٹم، ائیر فورس وغیرہ وغیرہ، ہر معاملے میں پاکستان افغانستان سے سو گنا زیادہ طاقتور اور بہتر پوزیشن میں ہے۔ اگر پاکستان چاہے تو افغانستان کے کسی بھی شہر کابل، قندھار، جلال آباد، پکتیکا، پکتیا، خوست، لوگر، غزنی وغیرہ میں اپنی مرضی کے اہداف نہایت آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔

سوال مگر یہی ہے کہ اگر شدت اس قدر بڑھا دی گئی تو پھر آگے کیا ہوگا؟ اس وقت افغان طالبان مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ 25 سال قبل ان کی پہلی حکومت میں شمالی اتحاد کے پاس افغانستان کی پانچ سے دس فیصد جگہ موجود رہی تھی۔ وادی پنجشیر میں تب ملا عمر کی طالبان حکومت اپنے چار پانچ سالہ دور میں احمد شاہ مسعود کو شکست نہیں دے سکی تھی۔ شمال میں بھی مزار شریف اور کئی دیگر علاقوں پر شمالی اتحاد کا کنٹرول تھا۔ بعد میں مزار شریف پر طالبان کا کنٹرول ہوگیا، مگر پھر بھی شمال میں طالبان مخالف اتحاد اچھی بھلی پوزیشن میں تھا۔ اس بار پوزیشن یکسر مختلف ہے۔ پنجشیر پہلے ہی مرحلے پر سرنڈر کر گیا۔ اسی طرح شمال میں مزار شریف اور بدخشاں، بلخ وغیرہ کے دیگر تمام شہر۔ اس وقت افغانستان میں ایک فیصد جگہ بھی احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے نیشنل رزسٹنس فرنٹ (این آر ایف)کے پاس نہیں۔ بظاہر کوئی ایسی قوت موجود نہیں جو افغان طالبان کی فوری طور پر جگہ لے سکے، چنانچہ جب ہمارا واسطہ انہی افغان طالبان ہی سے رہنا ہے تو پھر ٹمپریچر اتنا ہائی نہ کیا جائے کہ بعد میں وہ نارمل ہی نہ ہو پائے۔

بچوں کی تربیت کے حوالے سے دانا کہتے ہیں کہ انہیں مار پیٹ کی دھمکی دی جائے، اس پر عمل نہ کریں۔ ڈنڈا ہاتھ میں ہونا چاہیے، مگر اسے برسنا نہیں چاہیے کہ جب ایک بار ڈنڈے پڑ گئے تو پھر آئندہ کے لیے ڈر ختم ہوجاتا ہے اور وہ بیرئر ٹوٹ گیا۔ اگلی بار کوئی دھمکی بچتی ہی نہیں۔ اس لیے پاکستان کو فوجی حل ایک آپشن کے طور پر رکھنا چاہیے۔ اس کا تذکرہ کرتے رہیں، سناتے رہیں، مگر اسے بس آپشن ہی رکھیں۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، باہمی تجارت، کراسنگ کو بند کر کے دباؤ بڑھانا، افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا وغیرہ ایسی آپشنز ہیں، جن میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا بھی دباؤ افغان حکومت کو محسوس ہوگا۔ اگر ٹی ٹی پی کے حملے جاری رہتے ہیں تو پھر باہمی تجارت اور کراسنگ کھلے رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ پھر یہ سب بند ہی کر دینے چاہییں۔ افغان حکومت کو بھی اندازہ ہو کہ دہشت گردی کو سپورٹ کرنے کی ایک قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

پاکستان کے اندر بہت سے لوگ مسلسل سازشی تھیوریز پھیلاتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی کئی مفروضے پھیلائے جا رہے ہیں۔ ان سب کو رد کر دیں۔ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اصل مسئلہ ٹی ٹی پی ہے۔ بگرام بیس سے پاکستان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر امریکی صدر اسے لینا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اس کے لیے خود کچھ کرنا ہوگا۔ پاکستان اس پورے معاملے سے دور اور الگ ہے۔اصل مسئلہ ٹی ٹی پی ہے۔ پاکستان ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کا مطالبہ تب سے کر رہا ہے جب ابھی صدر ٹرمپ نے الیکشن بھی نہیں لڑا تھا۔ پچھلے تین برسوں سے یہی کشمکش چل رہی ہے۔ دہشت گردی کی وارداتیں جس قدر بڑھ گئی ہیں، اس میں پاکستان کے لیے ایک سخت، واضح اور ٹھوس موقف اپنانا مجبوری بن چکا ہے۔