بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جسے خود اُن کے ملک کے بعض ناقدین سرینڈر مودی کہہ کر پکارنا شروع ہوگئے ہیں، ان کے اندر ابتدا ہی سے مسلم دشمنی، پاکستان مخالفت اور بیزاری موجود تھی۔ جنرل مشرف کے دور میں بھی وہ گجرات کا صوبائی الیکشن پاکستان اور جنرل مشرف کے خلاف نعرے لگا کر جیتے، تب وہ پرویز مشرف کو میاں مشرف کہا کرتے تھے۔
وزیراعظم بننے کے بعد بھی نریندر مودی کی جارحانہ اور اینٹی پاکستان پالیسیوں میں شدت ہی آئی۔ خاص کر جب اجیت دول مودی کا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بنا۔ اجیت دول پولیس افسر تھا، بعد میں انڈین انٹیلی جنس بیورو کا سربراہ بنا۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ بھارت میں دونوں خفیہ ایجنسیاں آئی بی اور را کی آپس میں خاصی مخاصمت رہی ہے اور بھارت کے اندر آئی بی کی حاکمیت اور کنٹرول ہے، را بیرونی آپریشنز کے لیے مختص ہے۔ آئی بی افسران کو اس کا بھی خاصا شوق ہوتا ہے کہ وہ بیرونی آپریشنز کریں، مگر وہاں را اُن کی نہیں چلنے دیتی۔ شائد اسی وجہ سے اجیت دول جب نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بنا تو اس نے بیرونی آپریشنز پر زیادہ فوکس کیا۔ اپنی طرف سے زیادہ سمارٹ بنتے ہوئے سرجیل سٹرائیکس اور دوسرے ممالک میں گھس کر خفیہ آپریشن کے ذریعے اپنی دانست میں بھارت مخالف لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کا جنون اسی نے پالا۔ اجیت دول ہی کی وجہ سے بھارت کو کینیڈا میں شدید شرمندگی اٹھانی پڑی اور بھارت کینیڈا تعلقات کشیدہ ہوئے۔ امریکا میں بھی سکھ رہنمائوں کے خلاف آپریشن میں خفت اٹھانا پڑی، وہ تو امریکا کی مجبوری ہے بھارت کو ساتھ رکھنا، ورنہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے شدید مشکلات پیدا ہو جاتیں۔ اس کے قابل اعتماد شواہد موجود ہیں کہ پچیس سال قبل جب چند ہائی جیکرز نے بھارتی ائیرلائن کا طیارہ ہائی جیک کیا اور اسے بعد میں قندھار لے گئے تواجیت دول نے تب وزیراعظم واجپائی کو تجویز دی تھی کہ اس طیارے کو کسی طرح لاہور میں تباہ کر دیا جائے تاکہ الزام پاکستان پر آئے۔ واجپائی بھی بی جے پی لیڈر تھا، مگر اس میں اتنی انسانیت ضرور تھی کہ اس نے صرف سفارتی پروپیگنڈے کی خاطر تین سو بھارتی شہریوں کی موت کا بوجھ اٹھانے سے گریز کیا۔
بھارت میں پہلگام دہشت گردی واقعے کے بعد جس طرح بھارت نے نہایت جارحانہ رویہ اپنایا اور آخرکار پاکستان پر میزائل حملے کئے۔ اس کے پیچھے بھی وہی اجیت دول ڈاکٹرائن کارفرما ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اسے سیاسی قوت بڑھانے کا موقع سمجھا اور وہ سب کچھ ہوا جو ہم نے مئی کے مہینے میں دیکھا۔ بھارت کے مقدر میں پسپائی، رسوائی، ہزیمت اور بدترین شکست کی ذلت لکھی تھی۔ وہ اسے مل گئی۔ پاکستان کو مگر کئی فائدے حاصل ہوئے۔ مسلم دنیا میں بالخصوص اور دنیا بھر میں عمومی طور پر پاکستان ایک اہم عسکری قوت بن کر ابھرا۔ مغربی عسکری ماہرین اور دفاعی تجزیہ کاروں نے پاکستان پائلٹس اور دفاعی، عسکری منصوبہ سازوں کو سیریس لینا شروع کیا۔ ان کی مہارت، پلاننگ اور ہوشیاری کا ہر ایک کو اندازہ ہو گیا۔
چین پر خاص طور سے بہت اچھا اثر پڑا۔ پاکستان نے حقیقی معنوں میں چینی سپورٹ اور چینی اسلحے کا حق ادا کیا۔ دنیا بھر میں چینی اسلحے کی بلے بلے ہوگئی، کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت بڑھ گئی، نئے آرڈر آنے شروع ہوگئے۔ چینی طیارے اور دیگر دفاعی ہتھیار اچانک ہی مغرب کے جدید ہتھیاروں کے مقابلے میں موثر اور کارگر سمجھے جانے لگے۔ پاکستان کو ایک اور ایڈوانٹیج یہ ملا کہ جو چینی ہتھیار پاکستان کو شائد نہ مل پاتے یا جن کے ملنے میں دو چار سال لگ جانے تھے، چین نے دل کھول کر وہ ہتھیار دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ سب کچھ اتنا حیران کن اور ایسا جدید نوعیت کا ہے کہ ان ہتھیاروں کے ملنے سے پاکستانی فضائیہ کو بھارت پر بڑی واضح برتری حاصل ہو جائے گی۔ بعض ماہرین کے مطابق پاکستان بھارت سے ایک دہائی یعنی دس سال ایڈوانس ہوجائے گا۔ اب تو اس کا آفیشل اعلان ہوچکا ہے کہ پاکستان چین سے چالیس ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیارے لے رہا ہے۔ یہ اتنا جدید اور تباہ کن طیارہ ہے کہ اس کا بھارت کے پاس کوئی کاؤنٹر ہی نہیں۔ ففتھ جنریشن طیارہ سٹیلتھ ہوتا ہے یعنی ریڈار پر نظر ہی نہیں آتا اور اس کے ریڈار کی رینج زیادہ ہوتی ہے۔ اس طیارے کے ساتھ چین پاکستان کو پی ایل سترہ میزائل دے رہا ہے۔ یاد رہے کہ مئی کی جنگ میں پاکستان نے پی ایل پندرہ میزائل کے ساتھ رافیل طیارے گرائے تھے۔ پی ایل سترہ زیادہ جدید اور دور مار ہیں۔ ان کی رینج چار سو کلو میٹر سے زیادہ ہے۔
ففتھ جنریشن ’35۔J’ طیارہ ہونے کا مطلب ہے کہ پاکستان لاہور میں بیٹھے دہلی تک بھارتی فضائیہ کو نشانہ بنا سکتا ہے بلکہ اب پاکستانی طیارے آسانی کے ساتھ بھارتی حدود میں کئی سو کلومیٹر آگے جا کر بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ ففتھ جنریشن طیاروں کو روکنا روسی ایس چار سو اینٹی میزائل سسٹم کے لئے بھی بہت مشکل ہے۔ چینی جے پینتیس کو صرف امریکی ایف پینتیس ہی کاونٹر کر سکتا ہے جو ابھی بھارت کو کئی سالوں تک ملنے کا امکان نہیں یا ممکن ہے کسی حد تک سخوئی ستاون روسی طیارہ مقابلہ کر پائے۔ بھارت مگر امریکی دبائو کے باعث سخوئی ستاون بھی نہیں لے پا رہا۔ اپنا ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیارہ بنانے میں انڈیا کو کم سے کم دس سال لگ جائیں گے، پھر بھی معلوم نہیں اس کی کوالٹی کیسی ہو؟ کیونکہ انہوں نے اپنی طرف سے فورتھ جنریش طیارہ تیجا بنایا جس کے ابھی چند طیارے ہی آپریشنل ہیں، اس کا ڈیزائن ہی ایسا بھدا اور بچکانہ ہے کہ یار لوگ سموسہ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں۔ بھارتی تیجا کا پاکستانی جے ایف سترہ تھنڈر کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ یہ ہم نہیں بلکہ مغربی ماہرین بھی کہہ رہے ہیں۔
پاکستان چین سے کے جے پانچ سو (KJ-500) اواکس طیارے بھی لے رہا ہے۔ اواکس طیارہ دور تک نظر رکھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کے پاس پہلے سوئیڈن سے لئے گئے نو عدد ساب 2000 نامی اواکس طیارے تھے۔ پھر پاکستان نے انہیں چینی ساختہ ZDK-03 قراقرم اواکس طیاروں سے تبدیل کردیا تھا۔ مئی کی جنگ میں یہی اواکس استعمال ہوئے اور انہوں نے پاکستان کو فائدہ پہنچایا۔ ان کی رینج اچھی خاصی ہے، تین سو کلو میٹر کے قریب۔ یعنی تین سو کلومیٹر کی رینج میں کسی بھارتی ائیربیس میں کچھ موومنٹ ہو، طیارہ اڑے تو اس اواکس کو پتہ چل جائے گا۔ تاہم اب جبکہ ہمارے پاس جے پینتس آ رہا ہے، پی ایل سترہ میزائل بھی ہیں تو ہمیں زیادہ دور تک دیکھنے والے اواکس کی ضرورت ہے۔ کے جے پانچ سو اواکس کی رینج چار سو کلو میٹر سے بھی زیادہ ہے، ساڑھے چار سو سے پانچ ساڑھے پانچ سو کلو میٹر تک۔ یوں اس اواکس سے حاصل کردہ انفارمیشن اور ڈیٹا جب جے پینتیس طیارے تک شفٹ ہو تو پھر آسانی سے چار سو کلو میٹر تک یا اس سے کچھ زیادہ فاصلے پر اہداف پی ایل سترہ میزائلوں سے نشانہ بنائے جا سکتے ہیں۔ چین نے ایک اور بڑا تحفہ پاکستان کو دیا ہے، جسے تحفہ کہنا ہی مناسب ہوگا۔ یہ جدید ترین اینٹی میزائل سسٹم ایچ کیو انیس (HQ19) ہے۔ دنیا کا اس وقت جدید ترین اینٹی میزائل سسٹم تھاڈ سمجھا جاتا ہے۔ امریکا نے یہ بنایا ہے اور اسرائیل کو بھی دے رکھا ہے۔ چین کا ایچ کیو انیس اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم دراصل تھاڈ کے مقابلے کی چیز ہے۔
ایچ کیو انیس (HQ19)ا ینٹی میزائل سسٹم تیز ترین یعنی ہائپرسانک میزائل انٹرسیپٹ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دو ہزار سے تین ہزار کلو میٹر تک بیلسٹک میزائل کو فضا میں تباہ کر سکتا ہے۔ سب سے اہم کہ سیٹلائٹ یا بہت بلندی پر موجود ہدف کو بھی اُڑا سکتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ یہ نہ صرف بھارت بلکہ ممکنہ طور پر مستقبل میں کبھی اسرائیل یا امریکا بھی اگر بیلاسٹک میزائل حملہ کرے تو اسے بھی یہ سسٹم ناکارہ کر سکتا ہے۔ اس کا سب سے اہم امپیکٹ یہ ہے کہ بھارت کے اگنی سیریز میزائلوں کے خلاف دفاعی ڈھال بنے گا، اس سے پاکستان کا دفاعی اسٹرٹیجک مزاحمتی نظام مضبوط ہوگا اور ڈیٹرنس میں اضافہ ہوگا۔ بھارت پاکستان پر پہلا حملہ نہیں کر سکے گا جیسا کہ اس نے مریدکے، بہاولپور، مظفر آباد وغیرہ میں کیا تھا۔
اس پوری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ پاکستان کا چین سے یہ جدید ترین اسلحہ سسٹم حاصل کرنا نہ صرف اس کی دفاعی صلاحیت کو بڑھائے گا، بلکہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بھی متاثر کرے گا۔ اس سے بھارت کی فضائی برتری میں کمی آئے گی اور پاکستان کو ایک جدید اور مضبوط دفاعی نظام ملے گا جو جنوبی ایشیا میں چین اور پاکستان کی مشترکہ قوت کو نمایاں کرے گا۔ اس سب کچھ کے لئے بھارتی وزیراعظم کی احمقانہ جنگی جنون کا شکریہ ادا کرنا تو بنتا ہے کہ شاید یہ سب کچھ اتنی آسانی اور اتنا کم قیمت پر پاکستان کو اس وقت نہ مل پاتا۔