معاشی ترقی۔ سرکاری اعداد و شمار اور برسرزمین حقائق

وفاقی کابینہ نے مالی سال 2025_26 کے قومی مالیاتی میزانیے (بجٹ) کی منظوری دے دی ہے جس میں دفاع کے لیے 2 ہزار 414 ارب روپے، ترقیاتی منصوبوں پر ایک ہزار 65 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جبکہ گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین کے لیے 30 فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس کی تجویز ہے۔ وفاقی بجٹ کا حجم ساڑھے 17 ہزارارب روپے سے زاید کا تخمینہ لگایا گیا ہے جس میں سے ملک پر واجب الادا قرضوں کے صرف سود کی ادائی کے لیے تقریباً 9 ہزار ارب روپے مختص کیے گئے ہے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ پر زرعی آمدن کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

اس سے پہلے پیر کے روز اقتصادی سروے رپورٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ جنگ کے بعد معاشی ترقی کے میدان میں بھی بھارت کو شکست دے دی، معیشت درست سمت میں گامزن ہے، مہنگائی پر قابو پالیا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس ہوگیا، افراط زر میں ریکارڈ کمی ہوئی، زرمبادلہ کے ذخائر میں واضح اضافہ ہوا ۔ ترسیلات زر جون کے آخر تک 37 یا 38 ارب ڈالر تک ریکارڈ ہوں گی، 2 سال میں ترسیلات زر میں تقریباً 10 ارب ڈالرکا اضافہ ہوا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں تبدیل ہوچکا ہے۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ٹیکس نیٹ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال انفرادی فائلرز کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا، پرائیوٹ سیکٹر سے قرضوں کے حصول میں اصلاحات کیں، حکومت پرائیویٹ سیکٹرسے اپنی شرائط پر قرض لے گی۔بنیادی مالیاتی توازن میں 3 فیصد بہتری آئی، پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی تیزی کارجحان برقراررہا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے ملکی معیشت کی بحالی اور ترقی سے متعلق جتنے دعوے کیے ہیں ،ان سے کلی اختلاف یا اتفاق ضروری نہیں ہے اور یہ امر بلاشبہ قابل لحاظ ہے کہ موجودہ حکومت کی اقتصادی ٹیم نے معیشت کو سنبھالادینے کے لیے بہت سے اہم فیصلے اور اقدامات کیے ہیں جن کے نتیجے میں قومی معیشت کے بڑے معاشی اشاریے مثبت رخ دکھا رہے ہیں اور بہت سے بین ا لاقوامی ادارے اور ریٹنگ ایجنسیاں بھی پاکستان کی معیشت سے متعلق حوصلہ افزا رپورٹیں دے رہی ہیں تاہم جہاں تک پاکستان کے عوام کے نقطہ نظر کا تعلق ہے توحکومت کی معاشی کار کردگی کا جائزہ سالانہ اقتصادی سروے رپورٹ کے اعدادو شمار سے نہیں بلکہ عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینے کے ان عملی اقدامات سے ظاہر ہوگا جو حکومت آنے والی مالی سال میںکرے گی۔ زیر نظر سطور کی اشاعت تک بجٹ کی تمام تفصیلات سامنے آچکی ہوں گی اور یہ معلوم ہوسکے گا کہ حکومت نے کس کس شعبے میں عوام کو کتنا ریلیف دیا ہے تاہم سالانہ اقتصادی جائزے میں حکومت نے ملک کی معاشی صورت حال کا جو خاکہ پیش کیا ہے ،اس کو دیکھتے ہوئے معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ معاشی ترقی اور بہترین کار کردگی کے تمام تر بلند آہنگ دعوؤں کے علیٰ الرغم حکومت بجٹ میں عام آدمی کو کوئی خاطر خواہ ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

اقتصادی سروے رپورٹ میںچند تشویش ناک حقائق کو بھی ملفوف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ سب سے پریشان کن امر یہ ہے کہ حکومت گزشتہ سال کا ٹیکس ہدف پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ حکومتی قرضوں میں مزید 76ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی اصلاحات کی تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی ہم اپنی آمدنی بڑھانے کی بجائے قرضوں پر انحصار کرنے کی فرسودہ روش پر عمل پیرا ہیں۔یہ بات ہمیشہ سے کی جاتی ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑاہونے کے لیے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔ حکومت درآمدات اور برآمدات کے درمیان گیپ کو کم کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکی،سروے رپورٹ بتارہی ہے کہ رواں سال برآمدات میں 7 فیصد اضافہ ہوا جبکہ درآمدات میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔علاوہ ازیں معیشت کی شرح نمو بھی ناقابل ذکر ہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ ملک کی زرعی ترقی کی شرح کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق زرعی شعبے کی ترقی کی شرح محض 0.56 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال میں 6.4 فیصد تھی۔ یہ شرح زرعی شعبے میں گہرے بحران کی عکاس ہے، جس کا اثر براہ راست کسانوں کی آمدنی اور ملکی غذائی تحفظ پر پڑے گا۔زرعی شعبے کی سست روی خوراک کی قیمتوں، کسانوں کی آمدن اور دیہی معیشت پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ زرعی شعبے میں اس بڑے بحران کے باوجود وفاقی بجٹ میں زرعی آمدن پر انکم ٹیکس عاید کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تسلی بخش سطح سے بہت کم ہیں۔ اقتصادی سروے کے مطابق سب سے زیادہ 4فی صد ترقی صنعتی شعبے میں ہوئی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں کمی آئی ہے، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ 3 سال سے مسلسل کمی آرہی ہے۔

اقتصادی سروے کے مطابق مہنگائی میں نمایاں کمی آئی ہے، مہنگائی اپریل 2025 میں صرف 0.3 فیصد رہی، حکومت کے بقول مہنگائی 60 سال کی کم ترین سطح ہے مگر دوسری جانب عام آدمی کے لیے یہ امر ناقابل فہم ہے کہ کاغذات میں ہونے والی مہنگائی میں یہ ریکارڈ کمی اشیاء صرف کی قیمتوں میں کیوں نظر نہیں آتی۔ خود وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق حالیہ عرصے میں ملک میںچینی، دالوں، گھی ، تیل سمیت بنیادی اشیاء کی قیمتوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کرایوں میں یا تو اضافہ ہوا ہے یا پھر یہ قیمتیں آج بھی اسی سطح پر ہیں جہاں دو سال قبل بدترین معاشی بحران کے دنوں میں پہنچ گئی تھیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر آنے کے باوجود پاکستان کے عوام کو بہت کم براہ راست ریلیف دیا گیا ہے۔ تیسری جانب ان ناگفتہ بہ معاشی حالات میں بھی طبقہ اشرافیہ کی مراعات،ارکان پارلیمنٹ، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزراء کرام کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے جس سے عام آدمی کا یہ پیغام گیا ہے کہ حکمران طبقے کو صرف اپنی مراعات سے غرض ہے۔ عوامی حلقوں میں یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ عوام کوبنیادی ضرورت کی اشیاء پر سبسڈی دینے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے پر اعتراض کرنے والے مالیاتی ادارے آخر طبقہ اشرافیہ کی مراعات اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں یکمشت کئی کئی گنا اضافہ کرنے پر کوئی قدغن کیوں نہیں لگاتے؟ کہیں یہ مراعات مرضی کی قانون سازی کرانے اور ڈکٹیٹڈ بجٹ منظور کرانے کی رشوت تو نہیں؟