چین کا جرم کیا ہے؟

دنیا میں جدھر دیکھیے ایک ہی بات چل رہی ہے اور وہ یہ کہ اب دنیا میں دو بڑی طاقتیں ہیں امریکا اور چین اور اب دونوں میں پنجہ کشی چل رہی ہے۔
دنیا کے دو بڑے پہلوانوں میں ایک تو پرانا اور جانا مانا پہلوان امریکا ہے۔ دوسرا پہلوان یعنی چین نیا ابھرا ہے اور اس کی طاقت پرانے پہلوان کو غصہ بھی دلاتی ہے اور اسے فکر مند بھی کر رہی ہے۔ تیسرے بڑے پہلوان روس کو کئی جگہ زخم لگے ہیں اور اب وہ برابری کی سطح پر نہیں تو اس نے حل یہ نکالا ہے کہ نئے پہلوان سے ہاتھ ملا کر اس کی حمایت شروع کردی ہے۔ مجھے اس سوال کا جواب کبھی نہیں مل سکا اور آج بھی میں اس کی تلاش میں ہوں کہ چین نے ایسا کیا کِیا ہے جس کی وجہ سے امریکا اب اس کا مخالف ہے اور اسے پچھاڑنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا رہتا ہے؟ چین کا جرم ہے کیا؟
اگر آپ درست جواب کی تلاش میں ہیں تو وہ ایک ہی ہے۔ امریکا دنیا میں اپنی واحد سپر طاقت ہونے کی پوزیشن سے محروم نہیں ہونا چاہتا۔ وہ عالمی ممالک پر اپنے تسلط میں کمی نہیں دیکھنا چاہتا اور ہرگز برداشت نہیں کرتا کہ دنیا کے ممالک اس کی سرداری کے دائرے سے باہر نکلیں۔ اس ایک جواب کے سوا آپ کو کوئی دوسرا جواب نہیں مل سکتا۔ امریکا کو یہ سوچ بدلنی چاہیے کہ یہ خود امریکی فائدے میں ہو گی۔ ماضی میں روس کا معاملہ مختلف تھا۔ وہاں بھی جنگ سرداری کی تھی لیکن اس کے ساتھ اضافہ یہ بھی تھا کہ سوشلسٹ اور سرمایہ دارانہ نظاموں کی انتہاوں پر پہنچے ہوئے یہ ملک اپنے اپنے نظریات دنیا پر لاگو کرنا چاہتے تھے۔ نظریاتی بنیادوں پر ہی روس نے سوشلسٹ بلاک قائم کیے ہوئے تھے۔ ان ملکوں میں وہی نظام تھا جو روس میں موجود ہے۔ روس میں کٹر سوشلسٹ نظریات کے سرخیل نہ صرف موجود تھے بلکہ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے نظریات کو مسلسل دنیا میں پھیلتے دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ بات امریکا اور اس کے حلیف سرمایہ دارانہ نظام کے ممالک کو قبول نہیں تھی اور یہ ممالک مغربی دنیا میں تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کشمکش میں امریکا نے مختلف دفاعی معاہدوں مثلا سیٹو اور سینٹو کے ذریعے اپنے پروں کے نیچے چھوٹے ملک اکٹھے کر لیے تھے۔ ایک طاقت کا حامی ہو جانا دوسرے کی مخالفت تھا اور امریکی کیمپ کے ملک کو روسی کیمپ میں مخالف نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان متضاد نظاموں کا ایک رخ مذہب روایتی اقدار اور ثقافت بھی تھا۔ دنیا میں عام طور پر یہ تاثر تھا کہ روس کا سخت گیر نظام اس کے زیر اثر ملکوں میں بھی مذہبی ثقافتی اور روایتی اقدار کی آزادی قائم رہنے نہیں دے گا۔ زبان بندی کا کڑا نظام جو روس میں تھا، اس کے حلیف ممالک میں بھی قائم ہو جائے گا۔ یہ بات غلط بھی نہیں تھی لیکن مغربی ممالک نے اس منفی رخ کو بہت مبالغے کے ساتھ بڑھا چڑھا کر ایک عفریت کی شکل میں پیش کیا۔
دنیا کے مشرقی ممالک جن میں برصغیر بھی تھا، اپنے مذاہب روایت اور ثقافت کے خوگر تھے اور روسی حلیف بننے کی صورت میں ان سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں تھے، چنانچہ جغرافیائی قربت کے باوجود مشرقی ممالک نے روس سے فاصلہ رکھا۔ وہ روسی طاقت سے ڈرتے بھی تھے لیکن اس کے قریب جانے سے بھی خائف تھے۔ پاکستان بھی جو روس کے قریبی ہمسایوں میں شامل تھا، اسی کشمکش کا شکار ہوا اور بالآخر امریکا کو روس پر ترجیح دے کر امریکی اتحادی بنا۔ ستر کی دہائی میں جب روس اور امریکا کی شدید سرد جنگ جاری تھی، امریکا نے روس کو شکست دینے کیلئے چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور پاکستان نے اس رابطے کے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ اتحادی ہونے کے باوجود امریکا خاموشی سے مشرقی پاکستان کو الگ ہوتے دیکھتا رہا اور پاکستان کو سب سے بڑا زخم لگنے دیا اور یہ پہلی امریکی بے وفائی نہیں تھی۔
روس کے برعکس چین جانتا ہے کہ نظریاتی پھیلاو پر اقدامات دنیا کے ممالک کو خوف زدہ کریں گے، چنانچہ چین نے دنیا کے تمام ممالک کو اپنا حلیف بناتے ہوئے انہیں ان کے مذاہب روایات اور اقدار میں آزاد رہنے دیا۔ اس بات نے چین کو بے حد فائدہ پہنچایا۔ ایک طرف دنیا کے ممالک بے خوف ہو کر اس کے زیر اثر آتے چلے گئے اور دوسری طرف امریکا سمیت سرمایہ دارانہ نظام کے ممالک کو یہ موقع نہیں مل سکا کہ وہ چین سے دنیا کو خوف زدہ کر سکے۔ نظریات کی برآمد سے گریز کا یہ نکتہ روس کو بھی دیر سے سہی لیکن سمجھ میں آ گیا اور اب آپ دیکھتے ہیں کہ روس کئی دہائیوں سے اپنے نظریات کی برآمد نہیں کر رہا، چنانچہ مغرب کو چین مخالفت کا یہ جواز بھی نہیں مل سکا۔
جس پالیسی نے چین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا، وہ عالمی طور پر تمام ممالک کی برابری اور باہمی فلاح و بہبود کا نظریہ تھا۔ یہ دنیا میں امریکا اور مغرب کے اس نظریے پر کاری ضرب تھی جس کے تحت کچھ ممالک چھوٹے ہیں اور کچھ بڑے۔ دونوں میں برابری نہیں ہے۔ چین کے برابری کے نظریے نے اسے بے شمار ممالک کے قریب لانے میں نہایت مدد کی۔ چینی بیلٹ اینڈ روڈ کے نہایت دور رس اقدام نے چھوٹے اور غریب ملکوں میں فلاح و بہبودکے وہ دروازے کھول دیے جس کیلئے وہ کسی معجزے کا انتظار کرتے تھے۔ ان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ اپنی سڑکیں ڈیم کارخانے اور دیگر نظام بنا سکیں۔ چین نے بے شمار ممالک میں انفرا سٹرکچر بنانے کا کام اپنے ذمے لے کر ان ممالک کی تقدیر بدل دی۔ قدرتی طور پر ان کی رضا مندی کے ساتھ اہم بندرگاہوں اہم راستوں تک چین پہنچ گیا۔
یہ ایسا کام تھا جس کی مخالفت مغربی ممالک اور امریکا نہیں کر سکتے تھے، حالانکہ وہ اس کے نتائج اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ اس کی مخالفت اخلاقی لحاظ سے مغرب کو مہنگی پڑتی۔ آ پ یہ دیکھیے کہ 80سے زیادہ ممالک میں اس وقت امریکا کے 750فوجی اڈے موجود ہیں۔ روس کے 21سے زائد فوجی اڈے دنیا میں بتائے جاتے ہیں، جبکہ کچھ جگہوں پر ہوائی اڈوں کو استعمال کرنے کے معاہدے ضرور ہیں لیکن چین کا کوئی بھی فوجی اڈا دنیا بھر میں موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود چین کا اثر و رسوخ اہم ترین ممالک میں امریکا سے زیادہ ہو چکا ہے اور کئی اہم بندرگاہیں اور بحری راستے چین کے زیر انتظام ہیں۔ تیسری طرف چین نے صنعت اور ٹیکنالوجی میں خاموشی سے کام جاری رکھا اور اب  2025 میں دنیا کو حیران کر رہا ہے۔
خلاصہ یہ کہ چین نے امریکا اور مغرب کو گزشتہ 50سال میں کوئی اخلاقی جواز فراہم نہیں کیا کہ وہ دنیا کو اس کے جرم دکھا سکیں اور یہ چین کی بہت دانش مندانہ حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تو چین کا جرم ہے کیا؟ کیا آپ اس واحد جواب کے سوا کوئی جواب ڈھونڈ سکتے ہیں؟