چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کم گو آدمی ہیں۔ پالیسی امور پر ان کے بیانات بہت کم سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جب اعلیٰ منصب پر فائز کوئی شخصیت کم گو ہو اور وہ پالیسی اُمور پر بات کرے تو اسے توجہ سے سننا پڑتا ہے۔ حکمران’ سیاستدان اور ذرائع ابلاغ کے لوگ تو روزانہ کی بنیاد پر آتش بدہن شعلہ فِگن اور شرر فشاں ہوتے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پورے ملک کے دورے کررہے ہیں اور پاکستان سے نفرت کا الائو دہکا رہے ہیں۔ دھمکیاں دیتے ہیں، وعید سناتے ہیں کہ آپریشن سِندور ابھی جاری ہے، موجودہ جنگ بندی کو دیرپا یا مستقل قرار دینے کے بجائے اسے وقفے سے تعبیر کررہے ہیں۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا ‘شنگریلا ڈائیلاگ فورم’ میں شرکت کے لیے سنگاپور میں تھے، اس موقع پر انہوں نے 30مئی کو معروف خبر رساں ایجنسی رائٹر زکو انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں ان کے فرمودات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کچھ پیغام تو متن میں ہوتا ہے اور کچھ بین السطور ہوتا ہے، اس لیے ہم نے اسے موضوعِ سخن بنایا ہے۔
جنرل صاحب کے بیان سے معلوم ہوا کہ سیاسی ارتعاش اور جذباتیت کے برعکس پاک بھارت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان جنگ بندی کی بابت جو طے پایا تھا اس پر تاحال عمل ہوا ہے اور دونوں ممالک کی فوجیں 22اپریل سے پہلے کی پوزیشن پر واپس آگئی ہیں۔ انہوں نے کہا: ‘ماضی میں دونوں ممالک کے مابین تنائو لائن آف کنٹرول اور سرحدی علاقوں تک محدود رہتا تھا، لیکن اس مرتبہ بھارت نے ملک کے اندر حملہ کیا اور جواب میں پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا پڑا۔ دونوں ممالک نے چار دن میں جنگی جیٹ میزائل ڈرون اور بھاری توپ خانہ استعمال کیا، یہ جنگ بندی کے اعلان سے پہلے گزشتہ عشروں میں سب سے بدترین جنگ تھی۔’انہوں نے کہا: ‘جنگ بندی کے بعد کشیدگی کم کرنے کے لیے کوئی پسِ پردہ بات ہورہی ہے نہ غیررسمی مذاکرات ہورہے ہیں اور نہ شنگریلا ڈائیلاگ فورم کے موقع پر میری بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف سے کوئی ملاقات طے ہے۔
انہوں نے عالمی برادری کو متنبہ کیا: ‘مستقبل میں کشیدگی کے امکانات بڑھ گئے ہیں کیونکہ اس بار لڑائی صرف کشمیر کے متنازع علاقے تک محدود نہیں رہی بلکہ متحارب ملکوں کے اندر تک سرایت کرچکی ہے۔ لہٰذا خدانخواستہ اگراب جنگ چھڑی تو یہ پورے بھارت اور پاکستان تک پھیل سکتی ہے۔ پس اس کے ممکنہ نقصانات ناقابلِ تصور ہوں گے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بجاطور پر جنگ بندی کا کریڈٹ لیا ہے اور وہ متعدد مرتبہ اس کا ذکر کر چکے ہیں۔ پاکستان نے جنگ بندی کے حوالے سے امریکا، سعودی عرب، ایران، ترکیہ، آذربائیجان اور دیگر دوست ممالک کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔ بھارت نے پہلے تو امریکا کی مداخلت کی سرے سے نفی کی، لیکن پھر بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے تسلیم کیا کہ صدرِ امریکا نے رابطہ کیا اور جنگ بندی کے لیے مداخلت کی۔
الغرض جنرل ساحر شمشاد مرزا کا ملفوف انداز میں عالمی برادری بالخصوص امریکا کو انتباہ ہے کہ وہ جنگ بندی کرا کے آرام سے بیٹھ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں اس مسئلے کی سنگینی اور حساسیت کا صحیح ادراک نہیں ہے، ورنہ وہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر بٹھاتے، دونوں ملکوں کے مابین مسائل کی فہرست بناتے۔ ایک وہ جو فوری حل کے متقاضی ہیں اور دوسرے وہ جن کے لیے وقت درکار ہے۔ نیز مذاکرات کے لیے فضا کو سازگار بنانا اور تنائو کو کم کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عالمی برادری ابھی تک لاتعلق ہے اور یہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔
پس جنرل صاحب نے عالمی برادری کو اس مسئلے کی سنگینی اور حساسیت کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا: ‘اگر خدانخواستہ دوبارہ جنگ چھڑ گئی تو عالمی برادری کے پاس مداخلت کا وقت بہت کم ہو گا بلکہ میں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عالمی برادری کی مداخلت سے پہلے ہی ناقابلِ تلافی نقصان اور تباہی ہو چکی ہو گی۔پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن دونوں ممالک کے مابین ڈی جی ملٹری آپریشنز کی سطح پر ایک بحرانی ہاٹ لائن اور سرحد پر کچھ ٹیکنیکل سطح کی ہاٹ لائن کے سوا کوئی اور رابطہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: ‘چار روزہ جنگ کے دوران جوہری ہتھیاروں کی جانب کوئی قدم اٹھایا گیا نہ اس کی بابت سوچا گیا، مگر ایک انتہائی خطرناک صورتحال ضرور درپیش تھی۔ اس بار تو اللہ نے بچالیا لیکن اگر انتہائی حساس اورسنگین مسئلے کی بابت فریقین سے ایک دوسرے کے عزائم کے بارے میں اندازہ لگانے میں کوئی غیرارادی غلطی بھی ہوگئی تو بڑا بحران جنم لے سکتا ہے اور ردِعمل ماضی سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ الغرض مستقبل میں کشیدگی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
جنرل صاحب کے ان خدشات کو ان حقائق سے تقویت ملتی ہے کہ نریندرمودی روزانہ کی بنیاد پر جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ اپنی قوم کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے اُبھار رہے ہیں اور حالات کو ایک ایسے انجام کی طرف لے جارہے ہیں جس سے پیچھے ہٹنا خود اُن کے لیے مشکل ہوسکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس وقت بھارتی معیشت تیز ترین ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے لیکن اگر خدا نخواستہ وسیع پیمانے پر جنگ چھڑ گئی تو شاید مقدار اور معیار کے اعتبار سے نقصان بھی بھارت ہی کا زیادہ ہوگا لیکن اس کی شعلہ بار قیادت کو ابھی اس کا احساس نہیں ہے۔ اس وقت امریکا ہی اس پوزیشن میں ہے کہ موثر مداخلت کرے کیونکہ بوجوہ عالمی اُمور پر یورپ کی گرفت کمزور پڑ چکی ہے۔ اسرائیل جیسا رقبے اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ملک بھی فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کو غزہ کے مسئلے پر اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے اس نے فرانسیسی صدر کو دھتکار دیا ہے۔ روس خود یوکرین میں پھنسا ہوا ہے اور چین نے واضح طور پر پاکستان کی حمایت کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کو بے توقیر بلکہ مفلوج کردیا گیا ہے۔ ایسے میں عالمی تنازعات کو طے کرنے یا باہم برسرِ پیکار ممالک کے درمیان مداخلت کر کے جنگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے یا بجھانے کے امکانات معدوم ہیں۔ عالمی مسائل پاک بھارت اور اسرائیل فلسطین کی جنگ جیسے مسائل پر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے وقتاً فوقتاً جو بیانات آتے ہیں وہ میر تقی میر کے ان اشعار کا مصداق ہیں
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
پڑے ایسے اسباب پایانِ کار
کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے
نوٹ: پایانِ کار کے معنی ہیں: ‘انجامِ کار’۔ عالمی بینک کی ثالثی کے تحت قائم سندھ طاس دوطرفہ معاہدے کو بھارت نے یکطرفہ طور پر معطل کر دیا ہے، حالانکہ عالمی بینک کے صدر نے واضح طور پر کہا ہے کہ معاہدے کو یکطرفہ طور پر منسوخ یا معطل کرنے کا بھارت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور دفاعی قیادت نے متعدد بار واضح طور پر کہا ہے کہ پانی کیساتھ 25کروڑ پاکستانیوں کی بقا وابستہ ہے۔ ابھی تو اس کے فوری اثرات ظاہر نہیں ہوں گے جزوی اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں، لیکن اگر بھارت باز نہ آیا اور اس نے کوئی طویل مدتی منصوبہ بنا کر ان دریائوں کا رخ پھیرنے کی کوشش کی تو پھرخدانخواستہ فیصلہ کن مرحلہ آ سکتا ہے۔ یہ ‘مارو یا مرجائو’ کا مرحلہ ہو گا اور اس میں کسی بھی فریق کا فائدہ نہیں ہوگا تباہی ہی تباہی ہو گی۔ حیرت کی بات ہے: ایک ارب 44کروڑ آبادی پر مشتمل بھارت کی سیاسی قیادت میں کوئی بھی’رجلِ رشید’ نہیں ہے کہ مودی کو لگام ڈالے اسے تباہی کے راستے پر جانے سے روکے۔ بھارتی پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش بھی سامنے نہیں آ رہی کیونکہ مودی نے ایک انتہائی جذباتی کیفیت پیدا کر کے اپنے پورے جمہوری نظام کو یرغمال بنا لیا ہے۔ اپنی ذات جماعت اور موقف کو حب الوطنی کا استعارہ بنا لیا ہے اور اس سے دلیل اور معقولیت کی بنیاد پر اختلاف کو وطن دشمنی کے ہم معنی قرار دے دیا ہے عصبیت اپنی انتہا پر ہے اور ایسی فضا میں قومیں اپنا ذہنی توازن کھو دیتی ہیں۔