عرب ممالک اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں

اسرائیل نے سعودی عرب سمیت عرب وزرائے خارجہ کو رام اللہ جانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق ایک اہلکار نے اسرائیلی اخبار کو بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی عرب وزرائے خارجہ کی رام اللہ میں میزبانی کی خواہش رکھتی ہے تاکہ فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔ اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ایسی ریاست قبول نہیں کی جائے گی۔ اس سے پہلے یہ خبر آئی تھی کہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اتوار کو فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات کے لیے رام اللہ جائیں گے۔ مصر، اردن، قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکیہ کے وزرا بھی ممکنہ طور پر ان کے ہمراہ ہوں گے۔

سعودی وزیر خارجہ کا دورہ سعودی حکومت کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے ”دوریاستی حل” کے لیے زمین ہموار کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے جسے فرانس، برطانیہ اور بعض عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے اور محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی بھی اصولی طور پر اس کے حق میں ہے ، ماضی میں امریکا کا بھی یہی سرکاری موقف رہا ہے مگر امریکا کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ دوریاستی حل کے نظریے سے پیچھے ہٹ چکی ہے، امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں تل ابیب میں واقع امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرکے اس موقف سے عملاًانحراف کرلیا تھا اور نام نہاد ”ڈیل آف دی سینچری” کے نام سے ایک نیا فارمولا پیش کیا تھا جس کاحاصل فلسطینیوں کوبیت المقدس سے دستبردار ہوکر موجودہ فلسطینی اتھارٹی سے بھی کمزور انتظامیہ کے تحت اسرائیل کی غلامی قبول کرکے ایک کونے میں محدود ہوکر رہنا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ زبانی کلامی تو دو ریاستی حل کی بات کرتی رہی تاہم عملی طور پر اس نے ٹرمپ کی گزشتہ حکومت کی پالیسی کو برقرار رکھا۔ اسرائیل میں نیتن یاہو کی قیادت میں انتہا پسندصہیونی تنظیموں کے اتحاد کی حکومت بننے کے بعد صہیونی حکومت کی جانب سے دوریاستی حل کو مسترد کرنے، بیت المقدس پر مکمل قبضہ کرنے اور مغربی کنارے میں مزید غیر قانونی بستیاں بنانے کے کھلے عام اعلانات کیے جاتے رہے ،اس پر دنیا میں کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگی، اوپر سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بھی تیز کردیا گیا، فلسطینیوں نے ہر طرف سے مایوس ہوکر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق آپریشن طوفان اقصیٰ کی صورت میں اپنی بقا کی جنگ خود لڑنے کافیصلہ کیا جو بیس ماہ کا عرصہ گزرجانے کے بعدآج بھی جاری ہے۔ بلاشبہ فلسطینیوں کو اس جنگ کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے اور انہوں نے ایسی بے پناہ قربانیاں دی ہیں کہ حالیہ تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے مگر ان کی اس جدوجہد نے دنیا پر یہ ثابت کردیا ہے کہ کوئی قوم جب اپنی آزادی و خودمختاری کے لیے لڑنے اور مرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔ فلسطینی مسلمانوں نے عزت کی زندگی جینے یا شہادت کی موت مرنے کی اعلیٰ اسلامی روایت کو زندہ کرکے دکھایا ہے۔ گزشتہ بیس ماہ کے عرصے میں جتنا ظلم فلسطینیوں پر ڈھایا گیا ہے، اگر دنیا کی کسی اور قوم کو اس کے نصف کا بھی سامنا ہو جاتا تو شاید وہ اب تک ٹوٹ پھوٹ چکی ہوتی۔ غزہ اس وقت بھی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کا حال یہ ہے کہ اپنے ترکش کے تمام تیر آزمانے اوربہیمیت و سفاکیت کی تمام حدیں پار کرنے کے باوجود آج بھی وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ فلسطینی مقاومتی تنظیموں نے پہلے ہی دن کہا تھا کہ اسرائیل جتنا بھی زور لگا لے اور جتنی بھی آہن و آتش کی بارش برسا دے، اپنے قیدیوں کو مذاکرات اور معاہدے کے بغیر رہا نہیں کراسکتا۔ آج بیس ماہ بعد بھی صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل ایک بار پھر قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدے پر آمادہ ہے مگر ساتھ ہی وہ اپنی ناکامی اور شکست کو قبول کرنے پر بھی تیار نہیں، اس لیے اس کی جانب سے دور از کار شرائط پیش کی جارہی ہیں، ٹرمپ انتظامیہ بھی صہیونیت نوازی کی اپنی سرشت کے مطابق اسرائیل کی شرائط کو منوانے کی کوششوں میں ہے مگر فلسطینی مقاومتی تنظیموں نے انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کرنے کے باوجود چٹان جیسی استقامت کا ثبوت دیا ہے اور وہ معاہدے کے نام پر بلیک میل ہونے کو تیار نہیں۔

تیسری جانب جیسے جیسے وقت گزرتا جارہے ، اسرائیل کا خونخوار چہرہ دنیا پر عیاں تر ہوتا جارہا ہے اوریورپی ممالک کی جانب سے آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت غیر معمولی تبدیلیوں کی نشان دہی ہے، ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے امریکا کی صہیونیت نواز پالیسیوں کو دنیا میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا، صرف بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت ہی کھل کر اسرائیل کے مسلم کش اقدامات کی حمایت کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب دنیا بھر کے حقیقت پسند اور ضمیر کی آزادی پر یقین رکھنے والے حلقے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف یک آواز ہو کر صہیونی دہشت گردوں کی مذمت کر رہے ہیں اور اب دنیا کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ انسانی معاشروں میں جنگ، دہشت گردی اور خوف پھیلانے والی شرپسند قوتیں کون ہیں اور وہ لوگ کون ہیں جو مذہب، آزادی، انصاف، انسانی شرف و عزت اور اپنی زمین اور قوم کی خاطر ہر قسم کے مظالم برداشت کرنے کے باوجود اپنے عقیدے، نظریے اور سچائی کے ساتھ جڑ ے رہنے کی قوت رکھتے ہیں۔

دنیا میں رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہوئے اس وقت عالمِ عرب کی ذمہ داری ہے کہ وہ مداہنت اور حدود و قیود سے ماورا سیاسی مصلحتوں پر نظرِ ثانی کی ضرورت کو محسوس کریں۔ عرب ممالک کو خاص طور پر اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ اسرائیل کا دہشت گرد وزیر اعظم نیتن یاہو حالیہ بیان میںبیت المقدس پر قبضے کے عزائم کے اظہار کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی سرحدوں میں توسیع کی بات کرچکا ہے ، عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کو رام اللہ جانے سے روک کر اسرائیل نے اپنے عزائم واضح کردیے ہیں۔ ان حالات میں عرب حکمرانوں کی خاموشی بالخصوص جبکہ عالمِ اسلام پر طاری سکوتِ مرگ بالعموم دنیا کو ایک ایک غلط پیغام دے گا، اسرائیلی اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے مسلم امہ کی جانب سے کسی بھی ردعمل کا کوئی خطرہ لاحق نہیں، مسلم حکمرانوں کے کمزور فیصلوں کے نتائج گو فی الوقت اہلِ غزہ بھگت رہے ہیں لیکن جیسا کہ اسرائیل کے جارحانہ عزائم سے ظاہر ہے بہت جلد مسلم لیڈروں بالخصوص عرب قیادت پر ظاہر ہو جائے گا کہ غزہ دراصل ان کیلئے ایک دفاعی خط کے طورپر قائم رہا ہے۔ مسلم امہ کو اہلِ غزہ کی مدد و نصرت اور حمایت و تائید میں ہر ممکن طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔