یوم تکبیر: بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں!

ممتاز شاعر اور قومی ترانہ لکھنے والے حفیظ جالندھری مرحوم کا یہ مصرع”بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں” ان نازک حالات کی تصویر کشی کرتا دکھائی دیا جو پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کو عالم اسلام کی پہلی جوہری قوت بننے میں پیش آئیں۔ اسے رکاوٹوں اور عالمی طاقتوں کے دباؤ اور مشکلات کے کئی دریا عبور کرنے پڑے۔ یوم تکبیر اپنے نام کی طرح قومی توقیر اور ہمارے خوابوں کی تعبیر کا دن ہے۔ زندہ قومیں اپنے قومی دن تجدید عہد اور جوش و جذبہ کے ساتھ منایا کرتی ہیں۔ یہ دن ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں کی غیر متزلزل جدوجہد نے مہیا کیا۔

اپریل 1994میں آرمی چیف جنرل عبد الوحید کاکڑ نے واشنگٹن کا سرکاری دَورہ کیا۔ جوہری معاملے پر پاکستان کو امریکا کے عسکری اور اقتصادی پابندیوں کا سامنا تھا۔ امریکا نے28ایف 16طیاروں اور دیگر فوجی سازو سامان جس کی قیمت پاکستان ادا کر چکا تھا، دینے سے انکار کر دیا۔

جنرل وحید کاکڑ کے دَورے میں بار بار جوہری مسئلہ اٹھایا گیا۔ اعلیٰ امریکی عسکری اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیداروں نے پیشکش کی کہ اگر پاکستان اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کرنے اور افزودگی کی حد کی تصدیق کے لیے معائنے کی اجازت دے تو طیاروں سمیت تمام ہتھیار پاکستان کو دے دیے جائیں گے۔

جنرل کاکڑ نے تحمل سے جواباً کہا: مَیں دوستانہ تعلقات کی غرض سے آیا ہوں اور مشرق میں دوستی کو جہازوں اور ٹینکس سے نہیں ماپا جاتا۔ آپ ایف 16طیارے اور ہمارے پیسے رکھ سکتے ہیں، مگر ہم اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے اپنی سلامتی کے اہم مسئلے پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنے اور عالمی دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کیا۔ اگر پاکستان گھٹنے ٹیک دیتا تو وہ ایٹمی صلاحیت جو آج ملک کی قومی سلامتی کی ضامن ہے حاصل نہ کر پاتا۔

یہ واقعہ اس بات کی شہادت ہے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کیلئے طاغوت نے کیسے کیسے ہتھکنڈے اور ہتھیار استعمال کیے، مگر پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے کوئی دباؤ قبول کیا نہ کوئی دھمکی خاطر میں لائی۔ ایٹمی دھماکوں سے قبل کے ایل ایڈوانی براہ راست دھمکیوں پر اتر آئے۔ اس کے بعد بھی بھارت جب چاہتا جھوٹا الزام لگا کر پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیتا
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے مرے صحن میں رستے بنا لیے
(سبط علی صبا)

اس بار ہم 28مئی 2025کو پاکستان کے جوہری قوت بننے کی 27ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ اگر اللہ کی نصرت اور اعانت شامل حال نہ ہوتی اور ہمارے محب وطن اور کمٹڈ ایٹمی سائنسدانوں اور انجینئروں نے اللہ کے بھروسے پر، دن رات محنت نہ کی ہوتی تو ہم اِس عظیم الشان کامیابی سے کبھی ہمکنار نہ ہو سکتے۔ امریکا و مغربی ممالک نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کو اربوں ڈالر دینے کا لالچ دیا مگر نواز شریف
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
کی تصویر بنے رہے، کسی لالچ کے غچے میں آئے اور کسی کے دباؤ اور دھمکی میں آئے۔ وزیراعظم نواز شریف کو ان دھماکوں سے باز رکھنے کے لیے امریکا کی جانب سے 5ارب ڈالر کی پیشکش کی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بقول صدر بل کلنٹن نے دباؤ کے ساتھ میاں نوازشریف کے پرائیویٹ اکاؤنٹ میں 100ملین ڈالرز کی خطیر رقم جمع کروانے کی آفر بھی کی لیکن میاں نوازشریف دباؤ کے سامنے ڈٹ گئے اور پاکستان نے ہندوستان کی بالادستی کا خواب چکنا چور کر کے برصغیر میں طاقت کا توازن قائم کر دیا۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیشنل افیئرز کے تحت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی جس میں انہیں سونے کا تاج پہنایا گیا اور ‘مین آف نیشن’ کا خطاب دیا گیا۔ اس تقریب میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا ‘میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔ ہندوستان کو ایسا جواب دیں گے کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔’
اسی تقریب میں نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”میاں صاحب! اگر آپ نے دھماکا نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکا کر دے گی۔” مجید نظامی کا یہ فقرہ دراصل قوم کے جذبات کی عکاس تھا۔

بہرکیف ذوالفقار علی بھٹو سے میاں نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک ہر وہ شخصیت قابل تحسین ہے جس نے پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کی ابتدا کی، اسے بھرپور رازداری کے ساتھ فروغ دیا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ 9/11کے بعد جنرل پرویز مشرف نے کولن پاؤل کی ایک فون کال پر امریکا کی تمام شرائط تسلیم کرلیں اور پھر ڈاکٹر عبد القدیر کو رسوا کرنے کی کوشش کی، وہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ ماضی قریب کی سیاسی وعسکری قیادت نے یہ عالم کر دیا کہ دنیا ہمارے سچ کا اعتبار کرنے سے ہچکچانے لگی اور عوام بھی زبان حال سے یہ کہتے نظر آتے
مرے خدا مجھے اِتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
(افتخار عارف)

موجودہ سیاسی وعسکری قیادت نے جس انداز میں بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا، اس نے پاکستان کو ایک نیا وقار بخشا اور قوم میں یکجہتی کی نئی روح پھونک دی۔ اب ازلی دشمن بھارت اور دوسرے درپے آزار ممالک پاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری کو میلی آنکھ سے دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں کو کس سے خطرہ ہے اور انہیں کس طرح بچانا ہے یہ ہماری دفاعی قیادت کو بتانے کی قطعی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہر مرحلے پر احسن انداز سے اپنے فرائض منصبی کی بجاآوری کرتے ہیں۔ بیرونی طاقتیں آج بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے درپے ہیں جبکہ ہماری جوہری قوت ہماری بقا کی ضامن ہے۔ نواز شریف کا یہ غیر متزلزل عزم پاکستان کو ہمیشہ کے لیے ناقابلِ شکست اور بنیان مرصوص بنا گیا۔

میاں محمد نواز شریف نے تمام تر عالمی و امریکی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھارت کے مقابلے میں زیادہ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو عالمِ اسلام کی پہلی جوہری قوت بنایا۔ بھٹو، نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کی جرأتوں اور مساعیِ جمیلہ کی بدولت اسلامی جمہوریہ پاکستان آج عالمی جوہری کلب میں فخریہ طور پر شامل ہے۔ یہ جوہری طاقت ہی ہے جو آج پاکستان و پاکستانیوں کو بھارتی براہِ راست مہلک حملوں سے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے حالیہ ایام میں ہماری جوہری استعداد نے بھارت کو اس کی اوقات یاد دلا دی۔

وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے بھارت کی شکست اور پاکستان کی فتح پر ہر سال 10مئی کو ”یومِ معرکہ حق” منانے کا اعلان کیا ہے۔ نواز شریف اور ہماری عسکری قیادت و جوہری انجینئروں کی ہمت اور کمٹمنٹ نے یہ قابلِ فخر دن دکھایا۔ نواز شریف نے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا تو شاید ہم10مئی 2025 کا ”معرکہ حق” بھی بھارت کے مقابل نہ جیت سکتے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والی تینوں شخصیات بھٹو، نواز شریف، ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے محسنوں سے انتہائی برا سلوک روا رکھا گیا۔

نوٹ: ایک حالیہ مضمون میں شاید لاعلمی کی بنا پر پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے سائنسدانوں میں ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کا نام بھی لیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد السلام کا پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے کوئی تعلق نہیں تھا، موصوف پر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کا ڈیزائن امریکا کو فراہم کرنے کا الزام ہے۔ اس لیے حقائق کا ریکارڈ درست رکھنا چاہیے۔