آسمانی مذاہب میں قربانی کا تصور

گزشتہ سے پیوستہ:
بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بار عید الاضحی کے خطبہ میں فرمایا کہ قربانی کے دن کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے عید کی نماز ادا کی جائے اور اس کے بعد قربانی کی جائے، جس نے نماز سے پہلے قربانی کی ہے اس کی قربانی نہیں ہوئی اور اسے دوبارہ قربانی کرنا ہوگی۔ یہ سن کر ایک صحابی حضرت ابو بردہ بن نیار کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں تو نماز کے لیے گھر سے روانہ ہونے سے قبل قربانی کی نیت سے جانور ذبح کر کے آیا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ عام گوشت کی طرح ہے جو تم نے اپنے گھر والوں کو کھلایا ہے، اس کی جگہ تمہیں دوسرا جانور ذبح کرنا ہو گا۔ حضرت ابو بردہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں مگر میرے پاس اب ایک جانور ہے جو عمر میں کم ہے اور قربانی کے لیے عمر کی شرط پوری نہیں کرتا، کیا میں اسے ذبح کر سکتا ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تمہیں بطور خاص اس کی اجازت دے رہا ہوں، تم اس کم عمر والے جانور کو ذبح کر سکتے ہو، لیکن تمہارے علاوہ کسی اور کو یہ رعایت حاصل نہیں ہوگی۔

اس روایت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں (١) ایک یہ کہ قربانی میں جانور ہی ذبح کرنا ہے (٢) اور دوسری یہ کہ جانور بھی عمر اور وقت کی شرط کے مطابق ذبح ہوگا تو قربانی ہوگی ورنہ نہیں ہو گی۔ اس لیے قربانی سنت کے مطابق اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدایات کے مطابق ادا کریں اور آج کل کے ”زیادہ پڑھے لکھے” لوگوں کی باتوں کی طرف نہ جائیں جو خود بھی کنفیوزڈ ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی کنفیوژن کا شکار کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

قربانی کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اور وہ انسان کا خلوص اور اس کی نیت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمیں تمہارے جانور کے گوشت اور خون سے کوئی غرض نہیں ہے ”ولکن ینالہ التقویٰ منکم” (سورہ الحج) اللہ تعالیٰ کے پاس تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے یعنی تمہاری نیت اور خلوص کا اعتبار ہوتا ہے۔ یہ تو قربانی کا وہ پہلو ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے اور یہ خدا اور اس کے بندے کا معاملہ ہے، جبکہ قربانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کی مہمانی ہے، یعنی کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ذریعہ بناتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نمائندے بن کر اس کے بندوں کو ان دنوں میں کھلائیں پلائیں۔ گویا قربانی کرنے والے کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے کارندے کی ہے اور یہ بہت بڑی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے۔ اس لیے اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے کہ اپنے محلہ میں، برادری میں اور اردگرد کے ماحول پر نظر رکھیں کہ کوئی شخص اس سے محروم نہ رہ جائے۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک بار عید الاضحی کے موقع پر کچھ قبائل کے مفلوک الحال لوگ مدینہ منورہ آئے ہوتے تھے، ان کی رعایت کرتے ہوئے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید کے خطبے میں اعلان فرما دیا کہ کسی شخص کے گھر میں تیسرے دن کے بعد گوشت کا کوئی حصہ باقی نہ رہے۔ مقصد یہ تھا کہ قربانی کے گوشت کو بچا کر نہ رکھا جائے بلکہ سارے کا سارا لوگوں کو کھلا دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کسی صحابی نے گوشت کی ایک بوٹی بھی تین دن کے بعد گھر میں بچا کر نہ رکھی۔ اگلے سال عید الاضحی کے موقع پر صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ کیا تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت گھر میں نہ رکھنے کا حکم اب بھی باقی ہے یا وہ صرف گزشتہ سال کے لیے تھا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ حکم صرف گزشتہ سال کے لیے تھا، اب تم گوشت کھا بھی سکتے ہو اور ذخیرہ بھی کر سکتے ہو۔ اتفاق سے حضرت ابو سعید خدری کو یہ دوسرا حکم معلوم نہیں تھا، وہ سفر پر تھے، واپس آئے تو گھر والوں نے کھانے میں گوشت پیش کیا اور بتایا کہ قربانی کا گوشت ہم نے بچا کر رکھا ہوا تھا، انہوں نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک نبی اکرم ۖسے خود نہ پوچھ لوں میں یہ گوشت نہیں کھاؤں گا۔ نبی اکرم ۖ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ پابندی والا حکم صرف گزشتہ سال کے لیے تھا کہ اس موقع پر کچھ مفلوک الحال اور نادار لوگ آئے ہوئے تھے، ان کی وجہ سے میں نے یہ پابندی لگا دی تھی اور اس سال میں نے اجازت دے دی ہے کہ قربانی کا گوشت کھا سکتے ہو اور ذخیرہ بھی کر سکتے ہو۔ چند مفلوک الحال لوگوں کے مدینہ منورہ آنے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین دن سے زیادہ گوشت گھر میں رکھنے پر پابندی لگا دی تھی تو آج بھی ہمیں اردگرد ضرور دیکھنا چاہیے کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جنہیں ہفتہ میں ایک بار بھی گوشت نصیب نہیں ہوتا اور کتنے ایسے ہیں جن کو پورا پورا مہینہ گوشت کی بوٹی دیکھنا نصیب نہیں ہوتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ گوشت بالکل ذخیرہ نہ کریں، شوق سے ایسا کریں لیکن اپنے اردگرد کے قبیلہ برادری کے اور گلی محلے کے ان لوگوں کو بھی یاد رکھیں جنہیں مہینوں گوشت کھانے کو نہیں میسر آتا۔ یہ قربانی کا معاشرتی پہلو ہے اور سوسائٹی کی ضروریات سے اس عبادت کا عملی تعلق ہے جس کا ہمیں ضرور لحاظ رکھنا چاہیے۔

قربانی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟ ہماری قربانیاں کس کے لیے ہیں؟ قربانیاں ہم بھی دے رہے ہیں لیکن کن چیزوں کی قربانیاں دے رہے ہیں؟ ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان کی قربانی دے رہے ہیں، عقیدے کی قربانی دے رہے ہیں، ثقافت کی قربانی دے رہے ہیں، ملکی سالمیت کی قربانی دے رہے ہیں، عوام کے جان و مال کی قربانی دے رہے ہیں، قومی حمیت اور ملی غیرت کی قربانی دے رہے ہیں اور قومی وحدت اور خود مختاری کی قربانی دے رہے ہیں۔ہمارا حال یہ ہے کہ قرآن کریم کے احکام ہمارے سامنے ہیں مگر ہماری ان کی طرف توجہ نہیں ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات شب و روز ہم سنتے ہیں مگر ہمارے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن رات دو بجے امریکا کا حکم آجائے تو ہم اڑھائی بجے تک اس پر عمل کر کے اس کی رپورٹ بھی دے چکے ہوتے ہیں، ہمیں اسی کی سزا مل رہی ہے اور ایک اللہ کے سامنے سرنڈر نہ ہونے کے نتیجے میں خدا جانے کون کون سے دروازے پر ناک رگڑنا پڑ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ کتاب اللہ کے فیصلوں سے انحراف کرنے والوں پر ہم دنیا میں رسوائی اور ذلت مسلط کر دیتے ہیں، ہماری صورتحال آج کل یہی ہے کہ ہم نے شریعت پر عملدرآمد سے انکار کیا، قرآن و سنت کی بالادستی سے منہ موڑا، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکام و قوانین سے اعراض کیا، تو ہر طرف سے ہم پر ذلت اور رسوائی مسلط ہے اور عزت و وقار کا کوئی راستہ ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔ قربانی ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ قربانی اللہ تعالیٰ کے لیے دنیا کو قربان کرنے کا نام ہے، دنیا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکام سے منہ موڑنے کا نام نہیں ہے۔ دنیا کی خاطر دین کی قربانی اور دنیا والوں کی خاطر اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت اور احکام کی قربانی سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔

آج بھی اگر ہم اللہ کے در پر جھک جائیں، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات و تعلیمات کے سامنے جھک جائیں اور شریعت اسلامیہ کے سامنے سرنڈر ہو جائیں، تو ساری صورتحال بدل سکتی ہے، اس دلدل سے نجات مل سکتی ہے اور ہم قومی طور پر عزت و وقار کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے اجتماعی طور پر توبہ و استغفار کی ضرورت ہے، ملی حمیت و غیرت کو جگانے کی ضرورت ہے، اور عوامی سطح پر بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں۔