پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان: دفاعی اتحاد کی ضرورت

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان ہونے والی اہم ملاقات میں دونوں برادر ملکوں کے درمیان متعدد امور پر پیش رفت اور تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔ دونوں برادر ملکوں کے درمیان قیادت کی سطح پر ہونے والے سمجھوتوں اور مشترکہ منصوبوں نے دو طرفہ تعاون کو نئی جہت دی ہے۔ دفاعی، اقتصادی اور سفارتی سطح پر بڑھتے روابط اس بات کی علامت ہیں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اسٹریٹجک مفادات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کے ترکیہ کے دفاعی رہنماؤں سے رابطے، دفاعی تعاون کے لیے فضا ہموار کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق آذربائیجان بھی اس اشتراک کی حمایت کرتا ہے اور اس کے ماہرین ایک سہ فریقی سیکیورٹی تکون کو وقت کی اہم ضرورت قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان نے حال ہی میں بھارت جیسی طاقت کے خلاف ایک بڑی فتح حاصل کی ہے جس کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ خوابِ غفلت کا شکار ہونے کی بجائے آنے والے خطرات کا پہلے سے بڑھ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ عالمی سطح پر نیز خطے میں بدلتی ہوئی جغرافیائی، تزویراتی اور سیاسی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان ایک مربوط دفاعی اتحاد قائم کریں۔ یہ تینوں ممالک نہ صرف اسلامی اخوت، ثقافتی مماثلت اور تاریخی اشتراک رکھتے ہیں بلکہ انہیں مشترکہ خطرات کا بھی سامنا ہے، جن میں ہمسایہ ممالک کی توسیع پسندانہ پالیسیاں، پراکسی جنگیں، علیحدگی پسند تحریکیں اور مذہبی انتہا پسندی جیسے چیلنج شامل ہیں۔ اخوتِ اسلامی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خطرات کے مقابلے کے لیے مسلم ممالک کے مابین دفاعی، تزویراتی اور انٹیلی جنس تعاون کو عملی صورت دی جائے، تاکہ نہ صرف عالم اسلام کی سلامتی مستحکم ہو بلکہ دنیا میں طاقت کا توازن بھی برقرار رہے۔ جہاں تک علاقائی صورت حال کا تعلق ہے تو یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مملکت خداداد پاکستان اس وقت کئی محاذوں پر مصروف کار ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال، بھارت کی مسلسل جارحیت، پراکسی وار اور فتنہ خوارج جیسے داخلی و خارجی عناصر ریاست کی خودمختاری کو درپیش سنجیدہ خطرات ہیں۔

بھارت، جس کی عسکری، معاشی اور آبادیاتی برتری ظاہر ہے، اکھنڈ بھارت اور ہندوتوا کے نظریے کے تحت پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے کسی بھی ممکن اقدام سے باز نہیں آتا۔ فتنۂ خوارج کی پشت پناہی، انھیں اسلحے اور وسائل کی فراہمی کو ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، اسی طرح بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں بھی بھارت کا کلیدی کردار ہے جس کا ثبوت بھارتی دہشت گردوں کی گرفتاری کی صورت میں پاکستان کے پاس موجود ہے اور اب پاکستان عالمی سطح پر بھارت کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک بڑی مہم شروع کر چکا ہے جس میں بھارت کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ثبوت ہر ممکنہ عالمی فورم پر پیش کیے جائیں گے۔ جس طرح پاکستان کو قومی سلامتی کے مسائل کا سامنا ہے اور ایک بڑے لیکن غیر ذمہ دار اور متعصب پڑوسی کی جانب سے جارحیت کے خطرات ہر وقت موجود ہیں، اسی طرح آذربائیجان کو آرمینیا سے دیرینہ تنازعہ درپیش ہے، خاص طور پر نگورنو کاراباخ کے حوالے سے آذربائیجان کی فتح آرمینیا کو ہضم نہیں ہو رہی اور وہ بدلہ لینے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اس تناظر میں آذربائیجان کی دفاعی حکمت عملی اس وقت مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آرمینیا کو اسرائیلی دفاعی ٹیکنالوجی اور دیگر بیرونی حمایت حاصل ہے، جس کا مقصد آذربائیجان کو دباؤ میں رکھنا ہے۔

ترکیہ کی صورت حال بھی کم پیچیدہ نہیں۔ شام کے محاذ پر ایک بڑی فتح کے بعد اس جانب خطرات مسلسل موجود ہیں۔ لیبیا، عراق، یونان، اور بحیرہ روم میں کشیدگی، کرد علیحدگی پسند عناصر کی سرگرمیاں جن پر حال ہی میں قابو پایا گیا ہے لیکن کسی بھی بیرونی ایما پر کوئی مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے، علاوہ ازیں غزہ کا معاملہ کسی بھی وقت علاقائی جنگ کا سبب بن سکتا ہے کیوں کہ اسرائیل و امریکا سمیت کئی مغربی ممالک کی نظریں ترکیہ کی نئی ابھرتی ہوئی تزویراتی حیثیت پر مرکوز ہیں۔ ترکیہ کی ابھرتی ہوئی معیشت اور فوجی خودانحصاری، خاص طور پر ڈرون ٹیکنالوجی اور دفاعی صنعت، مغربی اسٹیبلشمنٹ کے لیے غیر معمولی تشویش کا باعث بن چکی ہے۔ یہ تینوں ممالک مشترکہ طور پر جن خطرات کا سامنا کر رہے ہیں، وہ ان کے درمیان تزویراتی اتحاد کو محض ایک جذباتی تصور یا حقیقت سے دور خواب کی بجائے، وقت کا ایک اہم اور عملی تقاضا بناتے ہیں۔ تینوں ممالک ایک جیسے خطرات سے دوچار ہیں اور حال ہی میں پاکستان اور ترکیہ کو فتوحات بھی نصیب ہوئی ہیں۔

مواقع، حالات اور مشترکہ چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے تینوں ملکوں کے درمیان عملی اتحاد کو اگر بروقت فعال کیا جائے تو امت مسلمہ کو تفرقے، عدم استحکام اور بیرونی تسلط سے نکالنے کی سمت ایک عملی قدم بن سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ اتحاد بس سہ فریقی سیکورٹی تکون تک ہی محدود رکھا جائے۔ اس اتحاد کی وسعت کی بات کی جائے تو قطر، انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو اس میں شامل کرنا نہ صرف اس کی افادیت کو بڑھا سکتا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے لیے ایک متوازن جواب بھی فراہم کر سکتا ہے۔ اسی طرح افغانستان، اگر فتنہ خوارج کی پشت پناہی سے دست بردار ہو کر اس اتحاد کا حصہ بنے، تو جنوبی ایشیا میں اسرائیل و بھارت کے عزائم کے لیے یہ ایک تزویراتی دھچکا بن سکتا ہے۔ یہ ممالک باہمی تجارت کو فروغ دے کر ایک دوسرے کے لیے معاشی استحکام کا ذریعہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان سی پیک منصوبے کی توسیع اور باہمی اقتصادی تعاون کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ اس قسم کے تمام اقدامات صرف عسکری لحاظ سے نہیں بلکہ خطے میں دیرپا امن، اقتصادی ترقی اور تہذیبی یکجہتی کے لیے بھی ایک نئی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔

پاکستان اور چین کی دوستی اس اتحاد کا قدرتی سہارا بن سکتی ہے۔ چین، جو خود بھی امریکی گھیراؤ اور بحر الکاہل میں فوجی تناؤ کا شکار ہے، ایک ایسے اشتراک کا خواہاں ہے جو اس کی مغربی سرحدوں پر استحکام کا ضامن ہو۔ پاکستان کا چین سے جدید Jـ35 لڑاکا طیارے حاصل کرنا اس دفاعی تعلق کی گہرائی کا مظہر ہے۔ اسی طرح ترکیہ کی جانب سے مشرقی فرات میں دمشق کی مدد کے لیے جدید اسلحہ کی فراہمی اور ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی تعیناتی، اسرائیلی اثر کو کمزور کرنے کی ایک کوشش ہے، جو اس کے علاقائی عزائم کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔ موجودہ عالمی منظرنامے میں پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کا دفاعی اتحاد صرف ایک نظریاتی خواب نہیں بلکہ وقت کی ایک تزویراتی ضرورت بن چکا ہے۔ یہ اتحاد امت مسلمہ کو صرف متحد ہی نہیں کرے گا بلکہ عالمی طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ عدم توازن کو چیلنج بھی کرے گا۔ یہ اتحاد اگر عملی جامہ پہن لے تو نہ صرف ان ممالک کے لیے تحفظ اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی بلکہ پوری مسلم دنیا کو بھی ایک نئی امید ملے گی۔