آسمانی مذاہب میں قربانی کا تصور

عید الاضحی کی آمد آمد ہے۔ قربانی کی عید جس میں دنیا بھر کے مسلمان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نذرانہ پیش کرنے کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ یہ قربانی نسلِ انسانی کے آغاز سے چلی آرہی ہے۔ قرآن کریم نے سب سے پہلی قربانی کا حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے حوالہ سے ذکر کیا ہے۔ ان کا رشتے پر جھگڑا ہو گیا تھا۔ فیصلے کے لیے انہیں قربانی پیش کرنے کو کہا گیا۔ دونوں نے قربانی پیش کی، ایک کی قبول ہوئی جو اس کے حق میں فیصلے کی علامت تھی، لیکن دوسرے نے غصے اور انتقام میں بھائی کو قتل کر دیا۔

اس دور میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ ہوتی تھی کہ قربانی، خواہ جانور کی صورت ہو میں یا کسی اور شکل میں، اسے میدان میں رکھ دیا جاتا تھا۔ آسمان سے آگ آ کر اسے جلا دیتی تھی، جو اس قربانی کے قبول ہو جانے کی علامت ہوتی تھی۔ آسمانی آگ سے جل جانے والی یہ قربانی موسٰی علیہ السلام کی شریعت میں بھی تھی جس کا ذکر بائبل میں ”سوختنی قربانی” کے نام سے موجود ہے اور قرآن کریم میں بھی اس حوالہ سے اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب یہود مدینہ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ وہ کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک وہ ”حتٰی یاتینا بقربان تاکلہ النار” (سورہ آل عمران) ایسی قربانی نہ پیش کر دے جسے آگ جلا ڈالے۔ یہ وہی سوختنی قربانی ہے جو بنی اسرائیل میں رائج تھی اور اسی کا جناب نبی اکرمۖ سے مدینہ منورہ کے یہودیوں نے تقاضا کیا تھا۔ اس کا جواب قرآن کریم نے یہودیوں کو یہ دیا کہ پھر تم نے بنی اسرائیل کے ان انبیا ء کرام علیہم السلام کو کیوں قتل کر دیا تھا؟ جو دیگر واضح دلائل پیش کرنے کے ساتھ ساتھ تمہارے کہنے کے مطابق سوختنی قربانی بھی پیش کر چکے تھے۔

یہاں یہ بات عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قربانی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کا ذکر حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے حوالہ سے ملتا ہے۔ بنی اسرائیل کے حوالہ سے بھی موجود ہے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا تو قرآن کریم نے اہتمام اور تفصیل کے ساتھ کیا ہے کہ انہوں نے جب خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں تو اسے حکم خداوندی سمجھتے ہوئے اس کے لیے تیار ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی کا خواب وحی ہوتا ہے، حجت ہوتا ہے اور دلیل ہوتا ہے۔ یہ ہمارے آپ کے خواب کی بات نہیں کہ کبھی سچا بھی ہو جاتا ہے مگر اکثر غلط ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ حجت اور دلیل نہیں ہے۔ جبکہ پیغمبر کے خواب اور بیداری میں کوئی فرق نہیں ہوتا اور جیسے پیغمبر پر بیداری میں نازل ہونے والی بات وحی ہوتی ہے اسی طرح خواب میں ہونے والا اشارہ بھی وحی کا درجہ رکھتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یہ خواب اپنے جواں سال اور اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بتایا تو وہ بھی اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ یہ پیغمبر کا خواب ہے، اس لیے کسی تردد اور تذبذب کے بغیر تیار ہو گئے۔ کوئی تفصیل نہیں پوچھی، کوئی وجہ دریافت نہیں کی، بے ساختہ جواب دیا ‘یاابت افعل ما تؤمر (سورہ الصافات) ابا جان جو حکم ہوا ہے کر گزریے، مجھے آپ صبر و حوصلہ کے ساتھ تعمیل کرنے والا پائیں گے۔ ”فلما اسلما وتلّہ للجبین” (الصافات) دونوں یعنی باپ بیٹا اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے جھک گئے اور باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے پیشانی کے بل زمین پر لٹا دیا۔ باپ نے اپنی طرف سے ذبح کر دیا اور بیٹا اپنے تئیں ذبح ہو گیا، مگر اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا، آواز آئی ”قد صدقت الرؤیا ” (الصافات) اے ابراہیم! آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ یہ آزمائش تھی جس میں پورا اترنے کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کی زندگی بھی بچا لی اور باپ بیٹے کو قربانی کی قبولیت کا پروانہ بھی دے دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ذبح عظیم سے نوازا اور ”وترکنا علیہ فی الآخرین” (الصافات ) ہم نے اس سنت پر بعد والوں کو قائم کر دیا۔اسی لیے جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ”ما ھذہ الاضاحی یا رسول اللّٰہ؟” یارسول اللہ یہ قربانی کیا ہے؟ تو جواب میں فرمایا کہ ”سنة ابیکم ابراہیم” تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت بھی فرمایا اور خود اپنی سنت سے بھی تعبیر کیا۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عید کی نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کی ”فقد اصاب سنتنا” اس نے ہماری سنت کو پا لیا۔ اس لیے قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت بھی ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی اکرم علیہ السلام ہر سال دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھے قربانی دیتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی میں دو مینڈھے ذبح کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ایک جانور اپنی طرف سے قربان کر رہا ہوں اور دوسرا اپنی اُمت کے ان افراد کی طرف سے ذبح کر رہا ہوں جو قربانی نہیں کر سکیں گے۔

یہاں ایک فرق ذہن میں رکھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی امت کے ان افراد کی طرف سے کی ہے جو قربانی نہیں کر سکیں گے اور اس کی استطاعت نہیں رکھتے ہوں گے، ان کی طرف سے نہیں کی جو استطاعت رکھتے ہوئے بھی قربانی نہیں کریں گے۔ ان کے بارے میں الگ حکم بیان فرمایا کہ ”من وجد سعةً ولم یضح فلا یقر بن مصلانا” جس نے قربانی کی استطاعت پائی اور قربانی نہیں کی وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ یہ لا تعلقی ہے اور برأت کا اظہار ہے اُن لوگوں سے جو استطاعت رکھتے ہوئے بھی قربانی نہیں کریں گے۔ البتہ جو لوگ استطاعت نہیں رکھتے ہوں گے اور ناداری کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکیں گے انہیں بھی محروم نہیں رکھا اور فرمایا کہ ان کی طرف سے میں قربانی کر کے جا رہا ہوں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اپنی قدر و قیمت اور عظمت کے اعتبار سے کون سی قربانی بڑی ہے؟ ان کی قربانی جو خود قربانی کر رہے ہیں یا ان کی قربانی جن کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی تھی۔ میرا ایمان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک قربانی پوری امت کے لیے کافی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے کی جانے والی قربانی کی طرف نسبت بھی ایک مسلمان کے لیے باعث سعادت و نجات ہے۔ بہرحال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قربانی کی ہے اور اُمت کو قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ عید الاضحی کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ میرے سپرد کیا اور فرمایا کہ اسے میرے صحابہ میں قربانی کے لیے تقسیم کر دو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ دو جانور عید قربان پر ذبح کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی طرف سے بھی قربانی دیا کروں، اس لیے میں ایک جانور آپ علیہ السلام کی طرف سے ذبح کیا کرتا ہوں۔

آج کل بعض لوگوں کی طرف سے یہ شوشہ چھوڑا جاتا ہے کہ قربانی صرف اس لیے تھی کہ حج کے موقع پر منٰی میں حاجیوں کی بڑی تعداد جمع ہو جاتی ہے، ان کی مہمان نوازی کے لیے کچھ جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن یہ بہت بڑا مغالطہ ہے۔ اس لیے کہ قربانی کے بارے میں جتنی روایات کا ذکر آیا ہے ان سب کا تعلق مدینہ منورہ سے ہے اور یہ ساری قربانیاں مدینہ منورہ میں ہوئی ہیں، کوفہ میں ہوئی ہیں اور بصرہ میں ہوتی رہی ہیں۔

قربانی کے بارے میں ایک مغالطہ اور بھی دیا جاتا ہے کہ قربانی کے لیے جانور ذبح کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کی بجائے نقد رقم خرچ کر کے بھی یہ ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے اور قربانی کا مقصد پورا کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی قطعی طور پر غلط ہے اس لیے کہ قربانی عبادت ہے اور کسی عبادت کی جو صورت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین فرما دی ہے وہ اسی صورت میں ادا ہو گی تو عبادت شمار ہوگی ورنہ نہیں ہوگی۔ مثلًا فجر کی نماز میں دو رکعت فرض ہیں جو ایک خاص کیفیت میں ادا کی جاتی ہیں، کوئی صاحب ان کی بجائے فجر کا سارا وقت قرآن کریم کی تلاوت میں گزار دیں اور کہیں کہ میں نے عبادت ہی تو کی ہے بلکہ زیادہ وقت صرف کیا ہے، تو ان کی دو گھنٹے تلاوت آٹھ دس منٹ میں پڑھی جانے والی دو رکعتوں کا متبادل نہیں ہو گی، اور وہ فرض نماز کے تارک متصور ہوں گے۔ اسی طرح اگر کسی شخص پر حج فرض ہو گیا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں حج پر دو لاکھ روپے خرچ کرنے کی بجائے دس لاکھ روپے کسی مسجد پر لگا دیتا ہوں تو دس لاکھ نہیں بلکہ دس کروڑ لگا کر اگر وہ انتہائی خوبصورت اور وسیع مسجد تعمیر کر دے تب بھی یہ اس کے حج کا متبادل نہیں ہو گا، اور وہ شخص فریضہ حج کے ترک کا مرتکب قرار پائے گا۔ اسی طرح قربانی اسی صورت میں قبول ہو گی جس شکل میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے، اس سے ہٹ کر اس کی جگہ دس گنا رقم بھی خرچ کر دی جائے تو وہ قربانی متصور نہیں ہو گی۔ میں اس پر بخاری شریف کی ایک روایت کا حوالہ دینا چاہوں گا، اس روایت کی تفصیل سن کر خود آپ لوگ فیصلہ کر لیں کہ قربانی کس شکل میں قبول ہوتی ہے اور کس صورت میں قبول نہیں ہوتی۔ (جاری ہے)