مصنوعی ذہانت اور علم الفرائض

چھٹی و آخری قسط:
قارئین ایک اور پہلو ذہن میں رکھیں کہ شروع میں کمپیوٹر پروگرام میں جو صورتیں درج تھیں ان میں خاص طریقہ کار کے تحت شوہر میں وراثت تقسیم کرنے کے اصول درج کیے گئے تھے لہٰذا کمپیوٹر اب اس نئے طرز کے سوال کا جواب نہ دے سکے گا کیونکہ کمپیوٹر خود ہی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتا کہ دو بیٹے اور ایک بیٹی سے مراد اولاد ہے۔ اب اس صورت میں ہمیں یا تو سوال کرنے کی مختلف ممکنہ صورتیں کمپیوٹر کو بتانا پڑیں گی جو سیکڑوں یا ہزاروں میں ہو سکتی ہیں یا پھر کمپیوٹر مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ بیٹے اور بیٹی سے مراد اولاد ہے اور اس کے لیے بھی کمپیوٹر کی پہلے سے بتایا گیا ہے کہ جب بیٹا بیٹی کے لفظ آئے تو اس سے مراد اولاد لیا جائے۔ بنیادی اصول پھر ہم دہراتے ہیں کہ کمپیوٹر کو خود سے کہیں یہ اصول اور ذہانت اِلقَا نہیں ہوتی بلکہ کمپیوٹر پروگرامرز اور سائنسدان اس کو پروگرام کرتے ہیں۔

علمائے کرام کے مطابق مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر یا ایپلی کیشن مثلاً چیٹ جی پی ٹی، جیمنائی یا کو پائلٹ وغیرہ سے دینی فقہی مسائل، بالخصوص علم الفرائض کے انتہائی پیچیدہ اور سنجیدہ مسائل معلوم کرنا، قرآنِ پاک کی تفسیر و ترجمہ کروانا، احادیث پر جرح و تعدیل کروانا، وراثت کی تقسیم کے اصول قرآن و حدیث سے اخذ کروانا وغیرہ سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ ان مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئرز کے اندر کئی طرح کی ٹیکنیکل خامیاں موجود ہیں۔ دوم یہ کہ آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی رہنے والی زندگی کا مدار اس دنیا کی زندگی کے اعمال پر منحصر ہے۔ اگر اس دنیا میں کوئی اچھا کام کیا تو اس کا بدلہ جنت کی صورت میں ملے گا اور اگر اس دنیا میں کوئی غلط کام کیا تو اس کا بدلہ دوزخ کی صورت میں ملے گا، لہٰذا جب عالمی سائنسی ماہرین واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر اس قابل نہیں ہیں کہ انسانی ذہانت کا مقابلہ کرسکیں اور ان میں کئی خامیاں ہیں تو پھر ان سے دینی رہنمائی لینا، فقہی مسائل پوچھنا، قرآن پاک کی تفسیر و ترجمہ کروانا، احادیث کی وضاحت کروانا ایسا ہے کہ کوئی اپنی آخرت کو خطرے میں ڈال کر اپنی ہمیشہ ہمیشہ کی آخرت کی زندگی کو داؤ پر لگا دے۔ سوم یہ کہ ان سافٹ وئیرز کی جواب دینے کی صلاحیت بالکل ناپائیدار ہے کیونکہ ان میں ہیلوسینیشن پائی جاتی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ان سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں ان سافٹ وئیر سے مختلف جوابات آتے ہیں اور سوال کے اسلوب سے جواب بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ اصولی طور پر جب سوال کسی ایک حقیقت سے متعلق ہے تو چاہے سوال کرنے کے اسلوب مختلف ہوں، جواب اسی حقیقت کو سامنے رکھ کر آنا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہ سافٹ وئیرز تکنیکی طور پر نیچرل لینگویج پروسسنگ کے ذریعے کام کرتے ہیں۔ چہارم یہ کہ ان سافٹ وئیرز کے بتائے گئے جوابات کی نہ دنیاوی قوانین میں کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی ملک اور ادارہ ان کو قابلِ اعتبار سمجھتا ہے، مثلاً چیٹ جی پی ٹی سے کیا کوئی پوچھا گیا سوال کسی ملک کی سپریم کورٹ میں تسلیم کیا جائے گا؟ نہیں، ہرگز نہیں! پھر کیا وجہ ہے یہ جوابات جو اس دنیا کی کورٹ کچہریوں میں تو قابلِ قبول نہیں ہوں، وہ مختلف دارالافتاء اور مفتیانِ کرام کے یہاں قابلِ اعتبار ٹھہر جائیں؟

سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ کے اندر جب طلبائے کرام کو چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر و ایپلی کیشنز سکھائی جائیں گی اور طلبائے کرام سے روایتی طریقہ تدریس و تعلیم سے ہٹا کر مصنوعی ذہانت کو استعمال کروایا جائے گا تو اس سے ان کے اندر علمی وتحقیقی استعداد نہ بن پائیں گی اور وہ نادانستگی میں علمی سرقہ کی باقاعدہ تربیت لے رہے ہوں گے۔ دیکھئے، مغربی ترقی یافتہ ممالک میں چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر و ایپلی کیشنز کے امتحانات میں استعمال کی سختی کے ساتھ پابندی عائد کی گئی ہے۔ اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں میں طلبائے کرام اگر چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر و ایپلی کیشنز کو استعمال کرکے کوئی مواد تیار کرتے ہیں تو اسے یکسر مسترد کردیا جاتا ہے بلکہ اس عمل کو علمی سرقہ گردانا جاتا ہے۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے ایپلی کیشنز کے استعمال سے سستی، کاہلی، اور کام چوری کو طلبائے کرام میں رواج دیا جائے گا اور ان کے اندر علمی گہرائی اور صحیح تحقیق کرنے کا جذبہ ختم ہوتا چلا جائے گا اور وہ چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر و ایپلی کیشنز پر اپنی معلومات کا انحصار کرنے لگیں گے جو من گھڑت، جھوٹی، اور حقائق کے منافی معلومات فراہم کرتی ہیں۔

خلاصہ یہ کہ ٭عام عوام مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر مثلاً چیٹ جی پی ٹی وغیرہ سے علم الفرائض کے مسائل ہرگز نہ پوچھیں اور نہ ہی ان سافٹ وئیر کی مہیا کی گئی معلومات پر بھروسہ کریں۔ عوام الناس کو چاہیے کہ وہ دینی مسائل کو مستند مفتیانِ کرام اور دارالافتاء سے معلوم کریں ۔ ٭مصنوعی ذہانت کے پروگرامز کو علومِ وحی اور بالخصوص علم الفرائض کے سمجھنے، سیکھنے سکھانے اور ترویج و اشاعت کیلئے استعمال نہ کیا جائے بلکہ جو ”خیر القرون” میں طریقہ کار اختیار کیے گئے ہیں یعنی ”سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی” اور ”سند”، انہی پر انحصار اور انہی کے ذریعے دینی علوم کو اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہیے۔ ٭مدارسِ دینیہ کے طلبہ میں پختہ علمی و تحقیقی استعداد بنانے کیلئے مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کے استعمال پر سختی سے پابندی لگائی جائے۔ بالخصوص فقہی مسائل کی تحقیق، خلاصہ، تفسیر، احادیث کی تخریج، اور فتاویٰ نویسی کیلئے چیٹ جی پی ٹی و دیگر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کو استعمال کرنے سے مکمل احتراز کیا جائے۔ ٭مصنوعی ذہانت قطعی طور پر وحی کے علوم کا متبادل نہیں ہوسکتی لہٰذا سختی کے ساتھ اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ مصنوعی ذہانت کو علومِ وحی کے متبادل کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔