ایک جملے میں خلاصہ نکالا جائے تو یہ ہے کہ نریندر مودی پاکستان کا محسن ثابت ہوا ہے۔ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کا بھی۔ اللہ کی تدبیروں کے عجیب عجیب رنگ ہیں۔ وہ رات سے دن نکالتا، شر سے خیر برآمد کرتا ہے اور دشمن کو محسن بنا دیتا ہے۔ بارہا زمین نے یہ منظر دیکھا ہے کہ حریف کو زمین پر لٹا دینے کے لیے جو جنگ شروع کی گئی تھی، اس نے خود حملہ کرنے والے کو زمین بوس کر دیا۔ کسی سلطنت کا طاقتور ترین حکمران اسی مملکت کے زوال کا سبب بن جاتا ہے۔ قرآن کریم نے پانچ ہزار سال پہلے کی ایک ایسی ہی دنیا کی طاقتور ترین سلطنت کا احوال یوں بیان کیا تھا ”اور بیشک فرعون اور ہامان اور ان کی فوجیں غلطی کرنے والوں میں تھیں۔” (القصص: 8)
مئی 2025ء کی اس مختصر اور محدود جنگ کے بعد میں سوچتا ہوں کہ مودی ہمارا کتنا بڑا محسن ثابت ہوا ہے تو ایک ایک پہلو روشن ہوتا چلا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔ فیض کی نظم ‘رقیب سے’ کا مصرع ہے … اتنے احسان کہ گنوائوں تو گنوا نہ سکوں۔ سو مودی نے سب سے بڑا دشمن بن کر جو بڑے بڑے احسانات کیے ہیں وہ بھی گنوائے نہیں جا سکتے۔ سب سے پہلے بھارت کے اندرونی نقصانات دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے۔ یہ اندر کے نقصانات پاکستان کے فوائد بھی ہیں اور اس کی نظریاتی تائید بھی۔ پاکستان بناتے وقت ہمارا دو قومی نظریہ یہی تھا کہ ہندو اور مسلمان الگ الگ قومیں ہیں جو اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ یہ ہم کہتے چلے آئے ہیں لیکن اس دور میں جس طرح مودی نے اس نظریے کو سچ ثابت کیا ہے وہ ہماری ہر دلیل سے بڑھ کر ہے۔ مود ی نے طے کر دیا کہ صرف مسلمان ہی نہیں دیگر اقلیتیں بھی بھارت میں دوسرے تیسرے درجے کے شہری ہیں۔ میں ان مسلمانوں کو جانتا ہوں جو شروع ہی سے پاکستان بننے کے مخالف تھے اوراس معاملے پر خود مجھ سے ان کی بیسیوں بار بحث ہوتی رہی۔ ان میں سے بیشتر کانگریس حکومتوں کی منافقانہ پالیسی کو جانتے ہوئے بھی شک کا فائدہ دیا کرتے تھے۔ مجھے اس وقت بھی اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ سیکولرازم کانگریس کا ڈھونگ ہے لیکن بہرحال اس نے ایک نقاب ضرور پہنا ہوا ہے۔ مودی نے تو ہندوتوا کا اصل چہرہ عیاں کر دیا۔ اگر مجبوریاں آڑے نہ آتیں تو وہ بھارت کے آئین کو بھی آر ایس ایس کا ایجنڈا بنا دیتا۔ بیشتر بھارتی مسلمانوں کو پہلی بار بہت شدت سے یہ احساس ہوا کہ وہ اس ملک میں بے یار ومددگار نہتے اور اکیلے ہیں۔ وہ اس بہت بڑی اکثریت کے رحم وکرم پر ہیں جو رحم کرنا جانتی ہی نہیں۔ انہیں مزید ادراک ہونے لگا کہ مسلح افواج، پارلیمنٹ، سرکاری عہدوں اور کلیدی مناصب پر ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کا تعلق ان کی تعلیم سے نہیں، ایک سوچے سمجھے منصوبے سے ہے۔ یہی نہیں مودی دور میں انہیں یہ یقین ہوگیا کہ وہ اپنی عبادت گاہوں خانقاہوں اور وقف املاک کی بھی حفاظت نہیں کر پائیں گے اور ان کی اگلی نسلیں اور ان کا دین بھی غیرمحفوظ ہے۔ یہی وہ بات تھی جو پاکستان کے معمار شروع سے کہا کرتے تھے، چنانچہ دو قومی نظریہ جس طرح مودی نے زندہ کر کے مسلمانوں کے سامنے رکھا، وہ اس کا پاکستان پر بہت بڑا احسان ہے۔
صر ف مسلمان ہی نہیں نچلی ذات کے ہندو مثلاً دلت بھی زیر عتاب ہیں۔ دلت اس وقت بھارت کی کل آبادی کا 25 فیصد ہیں۔ 16 کروڑ 70لاکھ کی اس آبادی کو جس طرح آئینی تحفظ کے ہوتے ہوئے بھی رگیدا جارہا ہے، اس کا کسی انصاف پسند معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح سکھ جو بھارت میں دو کروڑ ہیں اور اگرچہ سرکاری ملازمتوں، افواج اور اہم مناصب پر مسلمانوں کی نسبت بہتر صورتحال میں ہیں، مسلسل اضطراب میں ہیں۔ ان کا ایک کثیر طبقہ کھل کر کہتا ہے کہ 1947ء میں جب خالصتان بنانے کا سنہری موقع تھا ان کے اس وقت رہنمائوں نے ضائع کر دیا اور نہرو کی زبانی یقین دہانیوں پر بھروسہ کر لیا۔ یہ غلط فیصلہ بعد میں سکھ قوم نے بھگتا۔ مودی سے بھی پیشتر کانگریس کی حکومت میں انتہاپسند ہندو پالیسیوں نے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو جنم دیا اور یہ سلسلہ آپریشن بلیو اسٹار اور پھر اندرا گاندھی کے قتل پر منتج ہوا۔
یہ 1984ء کی بات ہے۔ اندرا گاندھی کے قتل پر جس طرح دہلی میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا وہ ابھی تک ان کے ذہنوں میں ہے۔ اس وقت ہندو ذہنیت ان پر پوری طرح اجاگر ہو گئی تھی۔ بھارت کی جنوبی اور شمال مشرقی ریاستوں خاص طور پر ”سیون سسٹرز” میں بائیں بازو کی مائو آزادی پسند تحریکیں مسلسل چل رہی ہیں۔ آٹھ بار میرا بھارت کے مختلف شہروں میں جانا ہوا اور حالات سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ جنوبی بھارتی ریاستوں کا مذہب شمالی بھارت سے کافی مختلف ہے۔ حتی کہ بعض صورتوں میں ایک کا بھگوان دوسرے کے نزدیک شیطان ہے۔ اس لیے مودی جس نے بھارت کو سیکولرازم کی بنیاد سے ہٹ کر ہندوتوا کا راستہ اختیار کیا اس نے بھارت کے زوال کا آغاز کر دیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان کی قوت اسلامی تشخص میں پنہاں ہے اور اس سے ہٹنے کی کوشش معاشرے کو شدید انتشار سے دوچار کر دے گی۔
یہ تو بھارتی شہریوں کی بات تھی۔ کشمیریوں پر بعد میں آتے ہیں جو خود کو بھارت کا شہری نہیں مانتے۔ اب ذرا بھارت کے دیگر ہمسایوں کی بات کر لیتے ہیں کہ کس طرح مودی نے انہیں بھارت سے دور اور پاکستان سے قریب تر کر دیا ہے۔ سب سے طاقتور ہمسایہ چین ہے۔ مودی حکومت مغرب کے ذہن میں چینی خطرے کو کیش کراتی رہی اور خود کو چین کا مدمقابل جتانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس پالیسی سے اگرچہ مودی نے کافی فائدے حاصل کیے لیکن بہت بڑا نقصان یہ ہوا کہ چین سے اس کی کشیدگی ہر محاذ پر بڑھ گئی۔ دو تہائی اکثریت کی طاقت سے جب 2019 میں مقبوضہ کشمیر اور لداخ کے متنازع علاقوں کو بھارت میں آئینی طور پر ضم کیا گیا تو یہ چین کیلئے بھی ایک خطرے کی گھنٹی تھی۔ اس کے بعد چین اور پاکستان تیزی سے مزید قریب آئے۔ پاکستان کو جدید ترین چینی اسلحہ اور طیارے ملے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی اور تربیت ملی اور پاکستان روایتی جنگ میں بھی بہت طاقتور ہو گیا۔ یہ بھارت کا بڑا نقصان اور پاکستان کا بڑا فائدہ تھا۔ خود بھارتی تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 370 ختم کرنے سے بھارت کو ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ بھارت کو دو الگ الگ محاذوں کا خطرہ پیدا ہو گیا اور چین پاکستان مشترکہ محاذ کا بھی۔ اسی مشترکہ محاذ نے مئی 2025ء کی حالیہ جنگ میں بھارت کا کثیر جنگی ومعاشی نقصان کیا۔ یہ مودی کا پاکستان پر وہ احسان ہے جسے بھولنا نہیں چاہیے۔
ایک اہم بھارتی ہمسایہ بنگلہ دیش ہے۔ حسینہ واجد حکومت کے خاتمے سے پہلے بھی بنگلہ دیش میں ہندو غلبے اور برتری کی کوششوں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی تھی، اب تو وہاں بھارت کے پائوں بالکل اکھڑ چکے ہیں۔ عوامی لیگ پر پابندی سے آئندہ انتخاب کے بعد بہتری کی امید بھی ختم ہو چلی ہے۔ وہ بنگلہ دیش جو حسینہ دور میں پاکستان کے حریف اور بھارت کے حلیف کی حیثیت رکھتا تھا، مودی حکومت نے اپنی پالیسیوں سے اسی کا رخ بالکل مخالف سمت موڑ کر رکھ دیا۔ حال ہی میں ایک سابق بنگلہ دیشی جنرل نے پاک بھارت جنگ کی صورت میں سلی گوری کوریڈور (چکن نیک) پر قبضے کی بات کی ہے جس سے سیون سسٹرز کہلانے والی شمال مشرقی ریاستیں زمینی راستے سے بھارت سے بالکل کٹ سکتی ہیں۔ بنگلہ دیش، چین اور پاکستان تیزی سے قریب آئے اور اس وقت چین رنگ پور (بنگلا دیش) میں فضائی اڈہ بنا رہا ہے جو سلی گوری کویڈور کے بالکل قریب ہے۔ مبینہ طور پر پاکستانی فوج نے بھی اس اڈے کا دورہ کیا ہے۔ یہ سب مودی دور میں ہوا۔ کیا یہ مودی کا پاکستان پر بہت بڑا احسان نہیں؟ نیپال، سری لنکا، مالدیپ اور بھوٹان میں بھی بھارت سے نفرت کے احساسات پیدا ہوئے ہیں۔ یہ سب شاید ممکن ہی نہ ہوتا اگر مودی حکومت بھارت میں ہندوتوا پالیسیاں نہ اپناتی۔ اس لیے اگر مودی کو پاکستان کا ”محسن دشمن” کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ (جاری ہے)