(پانچویں قسط)
اب ہم نے کمپیوٹر کے اندر انسان جیسی یہ صلاحیت اور ذہانت پیدا کرنی ہے کہ جب بھی اس کے سامنے عورت کے مرنے پر شوہر میں وراثت تقسیم کرنے کا مسئلہ آئے تو وہ انسانی ذہن کی طرح بالکل درست جواب دے۔ اس کے لیے پچھلی کئی دہائیوں میں کمپیوٹر سائنسدانوں نے اپنی ایجادات اور سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کمپیوٹر کو تدریجاً مصنوعی طور پر ذہین بنایا ہے اور اس کی بہت تفصیل ہے مگر ہم اختصار کے ساتھ اس کا بیان کرتے ہیں لہٰذا جب اس اصول کو مدنظر رکھ کر ہم کمپیوٹر کو پروگرام کریں گے تو بہت سے طریقوں سے کمپیوٹر کو پروگرام کیا جاسکتا ہے۔
پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ کمپیوٹر کو صرف ”ہاں” یا ”ناں” میں اولاد کے ہونے نہ ہونے کے بارے میں بتایا جائے اور اس بنیاد پر وہ شوہر کا حصہ بتا دے۔ پہلے طریقے میں کمپیوٹر کو جو معلومات فراہم کی جائیں گی وہ کچھ اس طریقے سے ہوں گی: ”مرنے والی عورت: ہاں” اور ”اولاد: ہاں”۔ اس سادہ سی معلومات پر کمپیوٹر سادہ سے الگورتھم کو استعمال کرتے ہوئے وراثت کا مسئلہ بیان کردے گا اور اس کا جواب یہ ہوگا کہ ”شوہر حصہ:ربع”۔ یہاں پر یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کمپیوٹر کو خود سے کہیں یہ اصول اِلقَا نہیں ہوئے بلکہ کمپیوٹر پروگرامرز و سائنسدانوں نے پہلے اس اصول کو خود کمپیوٹر میں درج کردیا (پروگرامنگ لینگویج کے ذریعے) اور اب کمپیوٹر اس اصول کو ذہن میں سامنے رکھ کر جواب دے رہا ہے۔ اب اس سارے تعامل کوعام انسانوں کے لیے قابلِ فہم اور دیدہ زیب دکھانے کیلئے سافٹ وئیر انجینئرئنگ کو استعمال کیا جائے گا اور ایک اچھا یوزر انٹرفیس Graphical User Interface (GUI) بنا لیاجائے گا، مثلاً ایک سافٹ وئیر انٹرفیس بنایا جائے جس میں اردو میں لکھا ہوا ہو مگر پیچھے جو پروگرامنگ لینگویج ہو وہ سادہ طرز کی ہو یعنی عمومی مقاصد کے استعمال کی پروگرامنگ لینگویجز مثلاً پائیتھن Python، آر ، لسپ Lisp، سی پلس پلس C، جاوا Java وغیرہ اور پھر اس پروگرامنگ لینگویج کے ذریعے کمپیوٹر کو صرف ”ہاں” یا ”ناں” میں اولاد کے ہونے نہ ہونے کے بارے میں بتایا جائے اور اس بنیاد پر وہ شوہر کا حصہ بتا دے۔
دوسرا طریقہ کار یہ ہوسکتا ہے کہ کمپیوٹر سے نیچرل لینگویج یعنی انسانی طرز تکلم کی طرح سوالات کیے جائیں اور اس کے لیے مصنوعی ذہانت کی مخصوص پروگرامنگ لینگویجز مثلاً پرولاگ Prolog، جو منطق یعنی لاجک Logic کو بھی سپورٹ کرتی ہے، کا استعمال کیا جائے۔ اس طریقے کی پروگرامنگ لینگویجز کے استعمال سے کمپیوٹر کو منطقی سوالات کے جوابات دینے آجاتے ہیں اور وہ منطق کو استعمال کرتے ہوئے نتیجہ بھی اخذ کرسکتا ہے۔ نیز مصنوعی ذہانت کے خاص شعبہ جنریٹیو آے آئی یا لارج لینگویج ماڈلز کو کمپیوٹر کو پروگرام کرنے میں استعمال کیا جائے۔ خیر اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ جس طریقے سے انسان باتیں کرتے ہیں، مختلف اسلوب میں سوال پوچھتے ہیں، مختلف زبانوں میں سوال پوچھتے ہیں، اس طریقے سے اس مسئلے کے بارے میں کمپیوٹر سے انسانی طرز پر سوالات پوچھے جاسکیں گے۔
مثلاً پہلا سوال یہ ہوگا کہ ” ایک عورت کا انتقال ہو گیا اور اس کی اولاد ہے تو شوہر کو وراثت میں کتنا حصہ ملے گا؟” دوسرا سوال یہ ہوگا کہ ”ایک عورت کا انتقال ہو گیا اور اس کے وارثین میں دو بیٹے، ایک بیٹی اور شوہرہے۔ اس صورت میں شوہر کو وراثت میں کتنا حصہ ملے گا ؟” غور کیجئے تو دونوں صورتوں میں ایک ہی بات پوچھی گئی ہے مگر سوال مختلف طرز پر کیے گئے ہیں۔ انسانی ذہن میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس طریقے کے سوالات پر غور کرکے جوابات دے دے مگر کمپیوٹر میں تو یہ صلاحیت پہلے سے موجود نہیں تھی لہٰذا کمپیوٹر سائنسدانوں نے سائنسی تحقیقات کیں اور پھر کمپیوٹر میں ایسی صلاحیت پیدا کردی ہے۔ اب کمپیوٹر بھی ان مختلف طرز کلام کے سوالات کے جوابات سے بنیادی سوال نکال کر اس کو انسانی طرز تکلم کو اختیار کرتے ہوئے نہایت شائستہ اسلوب میں جواب دے گا۔
ہم نے تو صرف اپنی مثال میں صرف دو طریقوں سے ایک ہی سوال پوچھا مگر بلامبالغہ سیکڑوں زبانوں (عربی، فارسی، پشتو، سندھی، انگریزی، پنجابی، سرائیکی وغیرہ) میں یہی سوال پوچھا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر ایک زبان عربی کی بات کی جائے تو اس کے مختلف ملکوں میں مختلف لہجے ہوتے ہیں تو لہجوں کے حساب سے بھی سوالات مختلف ہوسکتے ہیں مگر بنیادی بات یہ ہے کہ کمپیوٹر کو اس کا ایک ہی جواب (وراثت میں اولاد کی موجودگی میں شوہر کا حصہ ربع ہوگا) دینا چاہیے۔ پھر ہم اپنے سوالات کو صرف تحریری طور پر ہی کیوں مقید رکھیں؟ ہم مختلف زبانوں اور لہجوں میں آڈیو میں یہ سوالات کریں۔ اس صورت میں کمپیوٹر کو مختلف آڈیوز کو پہچاننا، اس میں تفریق کرنا وغیرہ۔ اب یہ ہے وہ مصنوعی ذہانت کی سائنسی تحقیق جو کمپیوٹر سائنسدانوں نے کی ہے۔ (جاری ہے)