بین الاقوامی قانون کے مرکز میں کسی ریاست کے اس خود مختار حق کو تسلیم کرنا ہے کہ وہ جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 51، جسے 1945ء میں نافذ کیا گیا تھا، واضح طور پر اس موروثی حق کی تصدیق کرتا ہے کہ اگر اقوام متحدہ کے کسی رکن کے خلاف مسلح حملہ ہوتا ہے تو موجودہ چارٹر میں کوئی بھی چیز جائز انفرادی یا اجتماعی دفاع کے اندرونی حق کو کمزور نہیں کرے گی۔
یہ نکتہ اپنے دفاع کے لیے ایک واضح قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے جبکہ جارحیت کی ممنوعہ کارروائیوں اور جائز دفاعی کارروائیوں کے درمیان ایک مضبوط فرق قائم کرتا ہے۔ مشترکہ بین الاقوامی حق اس اصول کو مزید تقویت بخشتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے وجود سے پہلے ہی ریاستوں نے تاریخی طور پر اپنی خودمختاری پر حملوں یا خلاف ورزیوں کا جواب دینے کے حق کا استعمال کیا ہے۔ آج ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو سرکاری مراسلے میں ردعمل کے اقدامات کا جواز پیش کرنے کے لیے اکثر آرٹیکل 51 کا استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان کے تناظر میں ہندوستان دشمنی پر مبنی کارروائیوں کا جواز پیش کرنے اور اندرونی چیلنجوں سے توجہ ہٹانے کے لیے اکثر فالس فلیگ آپریشنز کا سہارا لیتا ہے۔ دو نمایاں مثالیں سب کے سامنے ہیں اور وہ ہیں، پلواما اور پہلگام کے واقعات۔ 14 فروری 2019ء کو ایک خودکش حملے میں سی آر پی ایف کے ایک دستے کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 40 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارت نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا اور اس کے علاقے بالاکوٹ میں فضائی حملے کر دیے۔ ہندوستان کے سرکاری حکام، فوجی نمائندوں اور آزاد مبصرین نے رپورٹ کیا کہ یہ واقعہ ہندوستانی انٹیلی جنس کی جانب سے پاکستان کو بدنام کرنے اور رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستانی صحافی ارنب گوسوامی کی طرف سے کئے گئے پیغامات، جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فوجی ردعمل کے بارے میں پہلے سے علم رکھتے تھے، نے پہلے سے طے شدہ بیانیے کے حوالے سے شکوک و شبہات کو مزید ہوا دی۔
ابھی حال ہی میں اپریل 2025ء میں پہلگام میں ایک حملے میں کئی ہندوستانی سیاحوں کی اموات ہوئیں۔ حتمی شواہد کی عدم موجودگی کے باوجود ہندوستانی حکام نے فوری طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا۔ پاکستان نے واقعے میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کی تردید کی اور اس ڈرامے کو ایک اور ممکنہ جھوٹے فلیگ آپریشن کے طور پر پیش کیا جو مستقبل کی فوجی کارروائیوں کا جواز پیش کرنے اور مقبوضہ کشمیر میں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے رچایا گیا تھا۔ پلواما اور پہلگام کے واقعات کے بعد ہندوستان نے فضائی حملوں اور توپ خانے کے استعمال سمیت فوجی ردعمل کا آغاز کیا۔ پاکستان ان اقدامات کو جارحیت کی کارروائیوں کے طور پر دیکھتا ہے جو بھارت اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے کرتا رہا ہے۔ پلواما حملے کے بعد ہندوستان نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں فضائی حملے کیے۔ 1971ء کے بعد پہلی بار ہندوستانی طیاروں نے کنٹرول لائن عبور کی۔ اسی طرح پہلگام کے واقعے کے بعد بھی بھارت نے پاکستانی اہداف پر میزائل حملے کیے جس کے نتیجے میں شہری ہلاکتیں ہوئیں۔ پاکستان نے ان حملوں کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی اور کسی بھی قسم کی جارحیت کے خلاف اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کا عہد کیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی فوجی کارروائیاں صرف سلامتی کے خدشات سے متاثر نہیں تھیں، بلکہ وہ سیاسی طور پر فائدہ حاصل کرنے کے لیے کی گئی تھیں۔ ان کارروائیوں کا وقت انتخابی معاملات کے درمیان ہوتا ہے، جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد اقتدار میں موجود حکومت کے امیج کو مضبوط کرنا اور قوم پرست حمایت کو مستحکم کرنا ہے۔ یہ رجحان داخلی سیاسی مقاصد کے لیے فوجی طاقت کے استعمال کے لیے ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔
فالس فلیگ آپریشنز کے جاری الزامات اور اس کے نتیجے میں فوجی کشیدگی میں اضافہ، پلواما اور پہلگام جیسے واقعات کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ پاکستان مسلسل غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن بھارت اس سے انکاری رہا ہے۔ ان واقعات کی تحقیقات کے بغیر امکان ہے کہ الزامات اور جوابی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا جس سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی نمایاں طور پر بڑھ گئی ہے۔ سرحد پار حملوں، ڈرون حملوں اور توپ خانے کا استعمال ہوا ہے اور یہ سب کشمیر کے متنازع علاقے پر مرکوز ہے۔ ہندوستان نے پاکستان پر اس کے درجن سے زیادہ شہروں پر حملہ کرنے کا الزام لگایا، جس میں اہم فوجی مقامات بھی شامل تھے، جس کی وجہ سے ہندوستان کے شمال اور مغرب میں توانائی کی فراہمی منقطع رہی۔ دریں اثنا پاکستان نے اس میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کی تردید کی اور ہندوستان کی طرف سے غیر قانونی جارحیت کا جواب دیتے ہوئے درجنوں ہندوستانی ڈرون مار گرائے اور اسے کافی نقصان پہنچانے کا دعوی کیا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری تنازعہ کے پیچھے 14 فروری 2019ء کا پلواما حملہ اور اپریل 2025ء کا پہلگام واقعہ ہیں۔ لوگ ان واقعات کو فوجی کارروائیوں کا جواز پیش کرنے اور اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ہندوستان کی طرف سے مبینہ جھوٹی کارروائیوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحیت اکثر شواہد کے بجائے مفروضوں پر مبنی رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سب کے سامنے ہے کہ ہندوستان کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں شہریوں کو نشانہ بنایا گیا یے جبکہ پاکستان نے عام طور پر شہریوں کے نقصان سے بچنے کے لیے بہت احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔
تناو اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب بھارت نے بے بنیاد الزامات کی بنا پر پاکستان کے خلاف ایک اور فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ پاکستانی علاقے کو نشانہ بنانے والے میزائل اور ڈرون حملوں کی بڑے پیمانے پر جارحیت کی ایک سنگین کارروائی کے طور پر مذمت کی گئی، جس سے پورے ملک میں غم و غصہ پھیل گیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں شہری ہلاکتیں ہوئیں، جس کی وجہ سے حکومت اور پاکستانی فوج نے جواب دینے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ زبردست عوامی حمایت کا باعث بنا، کیونکہ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ وقت دفاع سے آگے بڑھنے اور اس طرح کی مذموم جارحیت کا جواب دینے کے پاکستان کے حق کی تصدیق کرنے کا ہے۔ پاکستانی فوج نے فوری اور درست جواب دیا اور صرف ان ہندوستانی فوجی مقامات پر حملہ کیا جو ہمارے شہریوں پر حملوں کے لیے استعمال ہوئے تھے۔ پاکستان نے جنگ کے تمام پہلووں میں ایک جامع اور موثر جواب دیا۔ پاکستانی عوام کا اتحاد اور لچک قابل ذکر تھا۔ پوری قوم نے اپنی مسلح افواج کی بھرپور حمایت کی۔ اس مضبوط اتحاد سے ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اس یکجہتی سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام پاکستان کی اس بہادر فوج کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں جو قوم کی خودمختاری کے دفاع اور مستقبل میں کسی بھی قسم کی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
