چوتھی قسط:
اِس اُمت نے منکرین حدیث کا فتنہ بھی دیکھا ہے۔ انکارِ حدیث کا عبرتناک انجام حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمة اللہ علیہ کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں:
”حدیث پر اعتماد نہ کرنے والوں کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا پوری امت میں سے ایک کو ناقابلِ اعتماد قرار دینا ہوگا۔ استغفراللہ! آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ زید کا کلام عمرو نقل کرے، سننے والے کو زید کے صدق کا یقین ہو اور عمرو پر اعتماد ہو کہ وہ نقل میں جھوٹا نہیں لیکن اس کے باوجود کہے کہ یہ کلام جھوٹا ہے۔ بہرحال یہاں یہ سوال کسی خاص حدیث کا نہیں بلکہ مطلق حدیث کا ہے۔ جب اس کا انکار کیا جائے گا اور اسے ناقابل اعتماد قرار دیا جائے گا تو اس صورت میں یا خود صاحب حدیث صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے اعتماد اٹھانا ہوگا یا پوری اُمت کو غلط کار اور دروغ گو کہنا ہوگا۔ انکار حدیث کی تیسری کوئی صورت نہیں اور ان دونوں کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اگر معاذ اللہ خود صاحب حدیث صلی اللہ علیہ وسلم یا چودہ سو سالہ اُمت سے اعتماد اٹھا لیا جائے تواس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ اسلام اور قرآن پر بھی ان کا اعتماد نہیں اور دین وایمان کے ساتھ بھی ان کا کچھ واسطہ نہیں۔ ان حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بے اعتمادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال دل میں نہ لانا چاہیے کہ اس تمام تر سعی مذموم کے باوجود وہ اسلام اور قرآن کو بے اعتمادی کے جھگڑے سے محفوظ رکھ سکیں گے”۔ (حوالہ: حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی، انکار حدیث کیوں؟ ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ 9،10، جلد: 94 رمضان، ذیقعدہ 1431ھ مطابق ستمبر، اکتوبر 2010ئ)
کلام اللہ شریف یا احادیث کی صحیح سمجھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آئی۔ نیز آج کا انسان قرآن و حدیث کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ نہیں سمجھ سکتا، لہٰذا ہمیں ہر صورت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اعتماد کرنا پڑے گا ورنہ ہم گمراہی کے دلدل میں پھنس جائیں گے۔ اگر کوئی یہ ترغیب دے کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی حدیث کی تشریح کردے، اس کا سیاق و سباق بیان کردے، اس سے مسائل کی تخریج کرلے تو یہ بات بالکل غلط ہوگی، کیونکہ مشین کے اندر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ سمجھ نہیں ہو سکتی اور نہ ہی مصنوعی ذہانت کی مشینوں نے حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے۔ لہٰذا مفتیانِ کرام کے مطابق مصنوعی ذہانت کے پروگرامز کو علومِ وحی کے سمجھنے، سیکھنے سکھانے اور ترویج و اشاعت کے لیے ہرگز ہرگز استعمال نہ کیا جائے بلکہ جو ”خیر القرون” میں طریقہ کار اختیار کیے گئے ہیں یعنی ‘سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی’ اور ‘سند’، انہی پر انحصار اور انہی کے ذریعے دینی علوم کو اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہیے۔
قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر کا کام انسانوں نے انجام دیا ہے۔ بڑے بڑے مفسرین نے قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر کی ہے مگر وہ لوگ اللہ کے ولی تھے، دینی علوم میں مہارت رکھتے تھے اور ان میں تقویٰ و للہیت تھی۔ اس کے علاوہ جن لوگوں نے عقل لڑا کر قرآن کا ترجمہ و تفسیر کی وہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ لہٰذا جن لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر اپنی رائے پر ترجمہ و تفسیر کیا اُن لوگوں میں للہیت، اتباعِ سنت، تقویٰ اور سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی نہیں ہوئی تھی۔ اِسی وجہ سے ان کے ترجمہ و تفسیر کو اُمت نے بحیثیتِ مجموعی تسلیم نہیں کیا۔ آج کے دور میں اگر کوئی مصنوعی ذہانت کے پروگرامز سے یہ توقع رکھتا ہے کہ ان سے ہم قرآن پاک کا ترجمہ، تفسیر، خلاصہ اور کسی آیت سے حکم نکال سکتے ہیں تو ایسا کرنا غیر مناسب ہوگا۔
قرآن پاک کا مفہوم وہی معتبر اور صحیح ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا ہو۔ قرآن پاک کی تفسیر کا کام نہایت احتیاط کا متقاضی ہے اور ہرکس و ناکس کا یہ کام نہیں کہ وہ محض قرآنی تراجم پڑھ کر عقلی طور پر قرآن پاک کی تفسیر و تشریح کرنے بیٹھ جائے۔ اگر کوئی شخص محض اپنی عقل کے بل بوتے پر قرآن کا مفہوم سمجھے اور پھر اس کو منشاء الہٰی قرار دے تو اس کو قرآن دشمنی پر محمول کیا جائے گا۔ مفہوم القرآن کی مزید وضاحت درجِ ذیل اقتباس سے ہوتی ہے:
”نہ یہ کہ بعض عقلیت زدہ متجددین کی طرح اپنی خالص ذہنی پرواز اور عقلی کاشت کو ادیبانہ وشاعرانہ رنگ آمیزیوں کے ذریعے بیان کرنے کا نام ”مفہوم القرآن” رکھ دیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن فہمی کے لیے اگر ایسی ہی کھلی چھٹی ہوتی اور ہر شخص کو اختیار ہوتا کہ وہ محض اپنی عقل کے بل بوتے پر قرآن کا مفہوم سمجھے اور جو مفہوم سمجھے بلا تکلف اس کو منشاء الہٰی قراردے اور فی الواقع وہ منشاء الہٰی نہ ہو تو سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نازل فرمانے کے لیے ایک رسول کا واسطہ کیوں بنایا؟ کیا اللہ اس پر قادر نہ تھا کہ وہ اپنی کتاب کو یکایک زمین پر اتار دیتا؟ اور اس کا ایک نسخہ ہر فرد بشر کے پاس آپ سے آپ پہنچ جاتا؟ اگر وہ اس پر قدرت نہیں رکھتا تو عاجز تھا؟ پھر ایسی عاجز ہستی کو خدا ہی کیوں مانیے؟ اور اگر وہ قادر تھا اور یقینا قادر تھا تو اس نے اپنی اس کتاب کی نشر و اشاعت کا یہ ذریعہ کیوں نہ اختیار کیا؟ یہ تو بظاہر ہدایت کا یقینی ذریعہ ہوسکتا تھا، کیونکہ ایسے صریح معجزے اور بین خوارق عادت کو دیکھ کر ہر شخص مان لیتا کہ یہ ہدایت خدا کی طرف سے آئی ہے، لیکن خدا نے ایسا نہ کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے توسط سے اپنی یہ کتاب بھیجی، ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب خود قرآن دیتا ہے، وہ ہمیں بتاتا ہے کہ خدا نے جتنے رسول بھیجے ہیں اُن کی بعثت کا مقصد یہ رہا کہ وہ فرامین خداوندی کے مطابق حکم دیں اور ان کے احکام کی اطاعت کریں۔ وہ الہٰی قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں اور لوگ انہی کے نمونہ کو دیکھ کر اس کا اتباع کریں۔ (حوالہ: خلاصہ مضامینِ قرآنی، صفحہ 19، تالیف مولانا سلیم الدین شمسی، جمع و ترتیب و اضافات: عمرانور بدخشانی، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، جنوری 2024ئ) (جاری ہے)