مودی نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان کر کے پاکستان کو خشک سالی کے حوالے کرنے کے اپنے خطرناک عزائم کا اظہار کر دیا ہے۔ حالانکہ اس اعلان کے چند روز بعد ہی دریائے چناب میں اچانک پانی چھوڑ کر اس نے ہمیں سیلابی صورتِ حال سے دوچار بھی کر دیا تھا۔
یاد رکھیے! ہر سال پانی چھوڑنا ہندوستان کی مجبوری ہے۔ وہ ایسا نہ کرے تو خود سیلاب میں ڈوب جائے۔ وہ خوشی سے ہماری طرف پانی نہیں چھوڑتا۔ اس کی خوشی تو اس میں ہے کہ پاکستان کو پانی کی ایک بوند بھی نہ ملے۔ وہ اپنے دریائوں پر مسلسل ڈیم بنا کر ہمارا پانی روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ہمارے دریا خشک ہوجائیں، پاکستان پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسے۔ پانی وہ اسی وقت چھوڑتا ہے جب اسے سنبھال نہیں پاتا۔ بھارت کے ہر سال چھوڑے ہوئے پانی کو پاکستان بھی ہر سال سنبھالنے سے قاصر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کبھی نچلے یا درمیانے درجے کا اور کبھی اونچے درجے کا سیلاب آ جاتا ہے۔ لوگ گھر سے بے گھر ہو جاتے ہیں۔ سینکڑوں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ ہزاروں مویشی پانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کے کچے اور پکے مکانات گر جاتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقے کو آفت زدہ قرار دے دیا جاتا ہے اور لوگوں کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے حکومتی سروے شروع ہوجاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کی دادرسی ہوپاتی ہے۔ زیادہ تر لوگ حکومتی امداد سے محروم ہی رہتے ہیں۔ وہ اپنی مدد آپ کے تحت خود کو بحال کرتے ہیں اور اگلے سال دوبارہ اسی صورتِ حال کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سیلاب کا اثر ہر سال پورے ملک پر پڑتا ہے۔ زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ سبزیوں کا ریٹ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ تازہ دودھ کی دستیابی میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ سیلابی علاقے قحط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہاں وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ 78سال سے یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔ سیلابی پانی ہمارے لیے ہر سال زحمت بن جاتا ہے مگر کبھی کسی حکومت نے اس زحمت کو نعمت میں بدلنے کا نہیں سوچا۔ کسی نے مخالف ہواؤں کو اونچی اڑان بھرنے کے لیے مددگار نہیں بنایا۔ سیلاب کو خدائی عذاب سمجھ کر ہر سال کھربوں روپے کا نقصان برداشت کر لیا جاتا ہے۔
جاپان کا محلِ وقوع اس قسم کا ہے کہ اسے سارا سال زلزلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر جاپانیوں نے یہ نہیں سوچا کہ چونکہ زلزلوں سے بچنا ممکن نہیں لہٰذا ہم پختہ عمارتیں بنانے کی بجائے جھونپڑیوں میں رہا کریں گے۔ جاپان والوں نے اس کا حل نکالا۔ اس کے انجنیئر سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے ایسے گھروں اور بڑی عمارتوں کے نقشے ڈیزائن کیے جوزلزلہ پروف تھے۔ آپ دیکھ لیں، جاپان میں کئی کئی منزلہ عمارتیں موجود ہیں۔ وہاں روزانہ زلزلے آتے ہیں مگر ان عمارتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ جاپانیوں نے ان زلزلوں کے ساتھ رہنا اور ان کے نقصانات سے بچاؤ کا توڑ نکالنا سیکھ لیا۔ ہم نے ہر سال سیلاب کا انتظار کرنے اور پھر اس کا شکار ہونے کے آگے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔ ہم نے سیلاب کو خدائی عذاب سمجھ کر اس کی لپیٹ میں آنا اپنا مقدر سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ ڈیم بنا کر یہی سیلابی پانی اس میں ذخیرہ کر کے ملک کو سرسبز وشاداب بنایا جا سکتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کا ہر سال پانی کی تقسیم پر ہونے والا جھگڑا بھی ختم ہو سکتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے خودغرض سیاستدانوں نے عوام کو گمراہ کر کے کالا باغ ڈیم پر سیاست کر کے اسے متنازعہ بنا دیا۔ سندھ کے سیاست دانوں نے اپنے عوام کو ہر سال سیلاب کی نذر کرنا گوارا کر رکھا ہے مگر کالا باغ ڈیم بننے کی مخالفت کے مشن سے پیچھے ہٹنا مناسب نہیں سمجھا۔ صوبہ خیبرپختونخوا کے سیاستدانوں نے اپنی سیاست بچانے کی خاطر ریاستی مفاد کو قربان کر رکھا ہے حالانکہ اس صوبے کو بھی اس ڈیم سے اتنا ہی فائدہ پہنچنا تھا جتنا باقی صوبوں کو پہنچتا۔ حکومتوں نے بھی اس پر زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی ورنہ ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات اور سوشل میڈیا پر کالا باغ ڈیم بنانے کی ضرورت پر بھرپور مہم چلا کر لوگوں کو اس کی افادیت سے آگاہی دینا اور موٹیویٹ کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ کالا باغ ڈیم فی الحال ممکن نہیں تو کیا اس سے ہٹ کر چھوٹے چھوٹے درجنوں بلکہ سینکڑوں ڈیم نہیں بنائے جا سکتے۔ بھارت نے بھی تو اپنے دریائوں پر ہزاروں ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک رکھا ہے نا۔ ہم ڈیم کیوں نہیں بنا سکتے؟ کیونکہ اس کے لیے قومی سوچ کی ضرورت ہے مگر ہماری تمام سیاسی لیڈرشپ قوم پر اپنی ذات اور سیاست کو ترجیح دیتی ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے، ہاتھ ملانے اور ساتھ بیٹھنے کو تیار ہی نہیں تو قومی سوچ کیسے پیدا ہو گی۔