(7 اپریل کو جامع مسجد گلزارِ مدینہ و مدرسہ عریبہ، چڑھان، موضع دھنواں، ضلع کوٹلی، آزاد کشمیر میں خطاب)
بعد الحمد والصلوٰة۔ حضرت مولانا محمد امین، مولانا محمد نوید ساجد اور تمام دوستوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے آج کی محفل کا انعقاد کیا اور آپ دوستوں کے ساتھ ملاقات کا موقع عنایت کیا۔ میں اس کانفرنس کے عنوان ‘نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم’ کے حوالے سے چار سوالات کے دائرے میں چند باتیں عرض کروں گا: پہلی بات یہ کہ نظامِ مصطفی وسلم کیا ہے؟دوسری بات کہ ہم مسلمانوں کا آج کے دور میں اس سے کیا تعلق ہے؟تیسری بات کہ اس کے نفاذ کے حوالے سے اب تک کیا کچھ ہو چکا ہے؟چوتھی بات کہ اس کی راہ میں کیا رکاوٹیں چلی آ رہی ہیں اور ہم اپنی منزل تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے؟
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ علیہ السلام نے تئیس سال کی نبوی زندگی میں ایک ریاست اور اس کا ایک نظام دیا۔ اس ریاست کو ریاستِ مدینہ کہتے ہیں اور جو نظامِ زندگی دیا تھا اسے نظامِ شریعت کہتے ہیں۔ نظامِ مصطفٰی کہہ لیں، دینِ اسلام کہہ لیں۔ اس نظام کا مختصر تعارف ہمیں خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلے خطبے کے چند جملوں میں مل جاتا ہے جو نظامِ مصطفی کے بنیادی ستون ہیں۔ اسلامی ریاست کی بنیادیں کیا ہیں اور اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے؟ مجھ سے جب اس بارے میں پوچھا جاتا ہے تو میری گزارش ہوتی ہے کہ تین خطبے اگر ہم بغور پڑھ لیں تو اس حوالے سے بنیادی سوالات کا جواب ہمیں مل جاتا ہے۔ حضرت صدیق اکبر کا پہلا خطبہ اور حضرت فاروقِ اعظم کا پہلا اور آخری خطبہ۔ آج کی سیاسی اصطلاح میں اسے پالیسی اسپیچ کہہ لیں۔ یہ تینوں خطبے بخاری شریف میں موجود ہیں اور جو علماء کرام سیاسی نظام سے دلچسپی رکھتے ہیں میری ان سے گزارش ہوتی ہے کہ انہیں یہ خطبے بطور نصاب کے پڑھنے چاہئیں۔
پہلی بات تو میں یہ عرض کروں گا کہ حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ کیسے بنے تھے۔ حضرت صدیق اکبر نے خلافت کے لیے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی کسی جنگ کے نتیجے میں اقتدار پر قبضہ کیا، بلکہ ایک مجلس میں اس وقت کے امت کے نمائندوں اور طبقات نے باہمی مشاور ت اور اعتماد کے ساتھ حضرت صدیق اکبر کو امیر منتخب کیا تھا۔ بخاری شریف کی روایت ہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوشگوار ماحول میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ علیہ السلام نے مجھ سے کہا: عائشہ! اباجان کو بلاؤ اور بھائی کو بھی، میں کچھ باتیں لکھ دوں۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ کچھ اور دعویٰ کر دیں۔ میں ابوبکر کے لیے خلافت کی جانشینی لکھ دوں۔ پھر فرمایا کہ رہنے دو: ‘یابی اللہ والمومنون الا ابابکر’ نہ اللہ کسی اور کو بننے دے گا اور نہ مومن کسی اور کو قبول کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کو اللہ کی تقدیر پر اور عوام کے فیصلے پر چھوڑ دیا تھا اور یہ بڑی حکمت کی بات تھی کیونکہ اگر آپ علیہ السلام حضرت صدیق اکبر کو نامزد کر دیتے تو پھر قیامت تک نامزدگیاں ہی چلتیں۔ حضرت صدیق اکبر کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو مسجد نبوی میں انہوں نے پہلا خطبہ ارشاد فرمایا :
ایہا الناس، انی قد ولیت علیکم ولست بخیرکم، فان احسنت فاعینونی، وان اسات فقومونی، الصدق امانہ، والکذب خیانہ، والضعیف فیکم قوی عندی حتی اریح علیہ حقہ ان شاء اللہ، والقوی فیکم ضعیف عندی حتی آخذ الحق منہ ان شاء اللہ، اطیعونی ما اطعت اللہ ورسولہ، فاذا عصیت اللہ ورسولہ فلا طاعة لی علیکم۔
فرمایا کہ میں تم پر امیر بنا دیا گیا ہوں لیکن تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ امیر بنا نہیں کرتے بلکہ بنائے جاتے ہیں اور ‘ولست بخیرکم’ کا جملہ تو کسرِ نفسی میں تھا، اس لیے کہ اس منصب کے لیے ان سے بہتر کون تھا؟ دوسری بات فرمائی کہ میں تمہیں اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی سنت کے مطابق لے کر چلوں گا۔ یعنی ریاست اور حکومت کا نظام کتاب اللہ اور سنتِ رسول ۖکے مطابق ہو گا۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ اگر قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے اور اگر اس سے ہٹ جاؤں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ریاست اور رعیت کے درمیان کمٹمنٹ اور تعلق کی بنیاد قرآن و سنت ہے اور چوتھی بات یہ فرمائی کہ اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلتا نظر آؤں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یعنی عوام اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کر سکتے ہیں اور انہیں حقِ احتساب حاصل ہے۔ اسلامی نظامِ حکومت کے یہ چار بنیادی ستون ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبے میں یہی باتیں ارشاد فرمائیں، لیکن اس میں یہ اضافہ کیا کہ میں اپنے پیشرو کے فیصلوں کا احترام کروں گا۔ مطلب یہ کہ میں پہلے سے چلے آنے والے تسلسل کو ختم کر کے نئے سرے سے آغاز نہیں کروں گا بلکہ اس تسلسل کو قائم رکھوں گا۔ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا تھا کہ اگر میں ٹیڑھا چلوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یہی بات حضرت عمر نے اپنے انداز میں فرمائی کہ اگر میں سیدھا چلوں گا تو میرا ساتھ دو گے اور اگر ٹیڑھا چلوں گا تو کیا کرو گے؟ روایات میں آتا ہے کہ یہ جمعے کا خطبہ تھا۔ حضرت عمر نے جب یہ فرمایا تو ایک بدوی کھڑا ہوا اور اس نے نیام سے تلوار نکال کر لہرائی اور کہا ‘یابن الخطاب’ اگر کتاب اللہ اور سنتِ رسولۖ کے مطابق چلے تو ہم تمہاری اطاعت کریں گے اور اگر ٹیڑھے ہوئے تو اس تلوار کے ساتھ تمہیں سیدھا کر دیں گے۔ حضرت عمر منبر پر کھڑے تھے، آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر فرمایا: یااللہ تیرا شکر ہے کہ میری رعیت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو عمر کو سیدھا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہے؟ ایک تعلق تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلم معاشرے میں کتاب و سنت کے احکام کو نافذ کرنا ہمارے لیے لازمی ہے، ورنہ ہم مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ کوئی بھی مسلمان ریاست پابند ہے کہ قرآن و سنت کے تمام احکام اپنی سوسائٹی میں عملاً نافذ کرے۔ ہم مسلمان عقائد و عبادات کے پابند ہیں، اخلاقی احکام کے پابند ہیں اور شریعت و قانون کے بھی پابند ہیں اور جب قرآن و سنت کی بات آتی ہے تو اس میں کوئی ایسی تقسیم نہیں ہے کہ کچھ احکام کو تو ہم لازمی مان لیں اور کچھ کو اختیاری طور پر لیں۔ مثال کے طور پر ‘یا ایہا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اسے تو لازمی سمجھیں، لیکن اس کے ساتھ ‘یا ایہا الذین اٰمنوا کتب علیکم القصاص’ کو ہم اختیاری سمجھیں۔ قرآن کریم میں جیسے نماز فرض کی گئی ہے، ایسے دیگر احکام ہیں جیسے ‘وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس’، ‘والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیہما’، ‘الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مائة جلدة’۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اور مسلم ریاست ہونے کی حیثیت سییہ سب احکام لازمی ہیں۔
جب پاکستان قائم ہوا تھا تو ہم نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے کہ ہماری تہذیب و ثقافت، ہمارا عقیدہ، ہماری اخلاقیات ان سے مختلف ہیں، ہمیں الگ ملک بنوا دو اور ”پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الااللہ” کے نعرے کے ساتھ ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ اس ملک میں ہم اسلام کا قانون نافذ کریں گے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم و مغفور اور ان کے ساتھ جو صفِ اوّل کی قیادت تھی، انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ہم اس نئے وطن کو اسلامی نظام کا نمونہ بنائیں گے اور ان کی حمایت میں جو علماء کرام تھے، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا عبدا لحامد بدایونی، حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، حضرت پیر مانکی شریف رحمہم اللہ تعالیٰ، وہ لوگوں کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ واقعی ایسا ہوگا اور ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اسلامی نظام کا اعلان قائد اعظم اور لیاقت علی خان کر رہے تھے اور اس کی ضمانت ہمارے علماء کرام دے رہے تھے جبکہ پاکستان بننے کے بعد دستوری طور پر ‘قراردادِ مقاصد’ کی صورت میں جو پہلا فیصلہ ہوا تھا اس کی بنیاد تین باتوں پر ہے:
٭حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ٭قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ ٭ اور حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے۔ یہ تینوں نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادیں ہیں۔ میں نے یہ بات عرض کی ہے کہ ہم پاکستانی دوہرے پابند ہیں، کلمہ طیبہ پڑھ کر بھی پابند ہیں اور نظریہ پاکستان کے تحت بھی پابند ہیں۔ (جاری ہے)