عارف علوی کی ”گل افشانی”: تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

عمران خان کی تعریف میں مذہبی الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال کثرت سے ہو رہا ہے۔ وہ خود بھی اس زعم میں مبتلا ہیں یا انہیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ وہ کسی ”الٰہی مشن” پر ہیں۔ ان کے فالوورز بھی یہی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی تعریف میں مبالغہ آرائی کے ذریعے اُن کا شمار خدا کی برگزیدہ ہستیوں میں کرتے ہیں۔ سیاست میں مبالغہ ہوتا ہے مگر جو کچھ عمران خان کے بارے میں سننے اور دیکھنے میں آ رہا ہے’ وہ الگ ہی رنگ لیے ہوئے ہے۔ عمران خان کا یہ عالم تھا کہ وہ یوسف بے کارواں ہوکر اکیلے سیاست کی وادیٔ پرخار میں ایک طویل عرصے تک ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ ان کی ”مقبولیت” ایمپائر کی انگلی کی محتاج رہی۔ اسی لیے غالب کے الفاظ مستعار لینے پڑ رہے ہیں
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
و گر نہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

اس سارے قضیے میں غلط فہمی یہ ہے کہ ”مقبولیت” کو سچائی کا پیمانہ بنایا گیا ہے۔ انبیاء کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حق اپنے استدلال کی بنیاد پر حق ہوتا ہے نہ کہ پیروکاروں کی تعداد کی اساس پر۔ انسان کا فیصلہ انفرادی ہو یا اجتماعی’ اس میں غلطی کا امکان بہرصورت ہوتا ہے۔ عمران خان کی مقبولیت کا موازنہ انبیائے کرام سے کرنا مقدس حقائق کو مسخ اور عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے حالیہ بیان میں مقبولیت کو خان کے برحق ہونے کی دلیل بنا کر پیش کیا اور اسے ثابت کرنے کے لیے جس خطرناک طریقے سے استدلال کیا وہ واضح کر رہا ہے کہ وہ
نہ تو ہیں کفر سے آگاہ نہ دیں سے واقف

ہماری تہذیبی روایات میں انبیائ’ صحابہ اور اُمت کے صالح افراد سے منسوب دعائیہ جملوں میں بھی حفظِ مراتب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ مثلاً: ‘رضی اللہ عنہ’ صحابہ کرام کے لیے مخصوص ہے۔ غیرصحابی اور نیک فردکے لیے ‘رحمة اللہ علیہ’ لکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر علوی کا بیان ایک سیاسی لیڈر کی حمایت سے زیادہ مذہب کے بنیادی تصورات کو مجروح کرتا نظر آتا ہے۔ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی مقبولیت کا پیمانہ محض عددی نہیں بلکہ ان کا مقصدِ حیات، اخلاقی اقدار اور انسانیت کی رہنمائی کا وہ عظیم مشن ہے جو کسی بھی سیاسی رہنما کے دائرہ کار سے ماورا ہے۔ عمران خان یا کوئی اور لیڈر کسی مخصوص دور میں خاص سہارے کی بنیاد پر عوامی پذیرائی حاصل کرتا ہے، تو اس مقبولیت کا موازنہ کبھی بھی انبیاء کے روحانی اور اخلاقی ورثے کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ موازنہ ایک طرف غیرمنطقی ہے تو دوسری جانب مذہبی حساسیت لیے ہوئے ہے۔ سیاسی موازنوں کو سیاسی میدان تک ہی محدود رکھا جانا چاہیے لیکن جب سیاسی لیڈروں کو انبیاء یا اولیاء کے ساتھ کھڑا کیا جاتا ہے تو یہ مذہب کی توہین کے زمرے میں ہی نہیں آتا بلکہ اس سے عوام کے مذہبی جذبات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ ہمارے سیاسی کلچر میں یہ رجحان عام ہو گیا ہے کہ لیڈران کو نعروں اور جذباتی نعرہ بازی کے ذریعے ”معصوم” اور ”مقدس” بنا دیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف ہو یا کوئی اور جماعت، کارکنان اپنے لیڈر کو ایک ایسی پینٹنگ کی طرح پیش کرتے ہیں جیسے وہ غیرمرئی قوتوں کا حامل ہے۔ انبیاء کی مقبولیت کا تعلق عوامی ہجوم سے نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ ان کے عہد اور انسانیت کی نجات کے مشن سے ہے۔ اسے کسی بھی سیاسی لیڈر کے ساتھ نتھی کرنا، چاہے وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، مذہبی اہانت کے مترادف ہے۔ ایک ڈینٹسٹ سے صدر تک کے سفر میں ڈاکٹر علوی نے بے شمار علمی اور پیشہ ورانہ کامیابیاں سمیٹی ہوں گی، لیکن سیاسی ومذہبی تربیت کے حوالے سے وہ آج بھی طفلانہ سوچ کے حامل نظر آتے ہیں
سبک ظرفوں کے قابو میں نہیں لفظ
مگر شوق گل افشانی بہت ہے

اچھی بات ہے کہ عارف علوی نے سخت ردعمل آنے کے بعد اپنی غلطی تسلیم کرلی اور معافی مانگ لی ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے حلقوں سے اس طرح کی بے اعتدالیوں کا تسلسل روکا جائے۔ مذہب اور سیاست کے باہم نازک رشتے کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی رہنما مذہبی اقدارسے کھلواڑ کرنے کے بجائے ان کے احترام کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں۔ اپنی حکومت کو’ ریاستِ مدینہ سے تشبیہ دینا قیاس مع الفارق ہے۔ ایک بچے کی زبانی، بانی پی ٹی آئی کے والدین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدینِ کریمین سے تشبیہ دینا کیا قرین انصاف ہے؟ کہا گیا کہ ”وہ تو معصوم بچہ تھا”۔ مگر دریافت طلب امر یہ ہے کہ بچے کے منہ میں یہ الفاظ کہاں سے آئے’ سٹیج پر تالیاں بجانے والے اعظم سواتی اور فیصل جاوید کیا بچے تھے؟ یہ بھی کہا گیا: ”خان کے کارکن نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی طرح ہیں” کیا یہ گستاخانہ طرزِ عمل نہیں۔ انڈین ریٹائرڈ میجر گوریو آریا کی گواہی ملاحظہ فرما لیں کہ عمران خان ملک دشمنوں کی آ شاؤں کی تکمیل کے لیے ہمہ تن کوشاں ہیں۔ آریا کے بقول انڈین را اور فوج نے مل کر پاکستانی فوج کو ستر سال میں وہ نقصان نہیں پہنچایا جو عمران خان پہنچا رہا ہے۔ خود افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ ”جو کام ملک کے ابدی دشمن 75 سال میں نہ کر سکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے اس گروہ نے کر دکھایا۔”