مفہومِ قرآن اور مصنوعی ذہانت

تیسری قسط:
مصنوعی ذہانت اور ذہانت کی آخری انتہا؟
مصنوعی ذہانت کے پروگرامز کی کتنی استعداد اور صلاحیت ہے؟ اور ان مصنوعی ذہانت کی ذہانت کی آخری انتہا کیا ہوسکتی ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس انگریزی کی ایک سب سے بڑی ڈکشنری (قاموس، لغت، فرہنگ) موجود ہے جس میں انگریزی زبان کے تمام حروف و الفاظ موجود ہوں تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ پوری دنیا میں آج تک جتنا بھی مواد انگریزی زبان میں لکھا اور بولا گیا وہ اس ڈکشنری میں موجود لفظوں کے ہیر پھیر (یعنی ایک خاص ترتیب سے ان لفظوں اور حرفوں کو قواعد زبان یعنی گرامر کے حساب سے یکجا کرنا) سے ہی لکھا اور بولا گیا ہے؟

یقینا اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی زبان میں آج تک جتنے ناول، افسانے، اشعار، سفرنامے، مکتوبات، تدریسی کتب، تحقیقی کتب، سوانح، اور ڈرامے وغیرہ لکھے گئے ہیں انہیں اس ڈکشنری میں موجود لفظوں کی مدد سے ہی تحریر کیا گیا ہے مگر ہم یہ دیکھیں گے کہ اس انگریزی تحریر کا لکھنے والا مصنف کون ہے؟ اس کی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟ اس کا علمی مقام کیا ہے؟ اس کا تجربہ کیا ہے؟ اور وہ اپنے لکھے ہوئے مضمون پر کتنا اختصاص رکھتا ہے؟ اس کی لکھی گئی تحریر کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

اگر کوئی آسکر وائلڈ کی تحریروں کو یہ کہہ کر مسترد کردے کہ اس کی تحریروں میں کیا کمال ہے؟ صرف انگریزی ڈکشنری کے لفظوں کے ہیر پھیر سے ہی تو آسکر وائلڈ نے اپنی تحریریں لکھیں ہیں۔ تو کیا کوئی عقلمند اس کو تسلیم کرے گا؟ اسی طریقے سے کوئی بخاری شریف کے بارے میں معاذ اللہ، ، یہ کہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا بخاری شریف لکھنے میں کیا کمال ہے؟ یہ تو صرف عربی قاموس کے لفظوں کا ہیر پھیر ہے۔ اس طریقے کی بات کہنا کفر تک لے جاتی ہے۔ اگر کوئی حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی قدس سرہ کی ”صحیح مسلم” پر شہرہ آفاق شرح ”فتح الملہم” کے بارے میں یہ کہے کہ یہ تو صرف عربی قاموس کے لفظوں کا ہیر پھیر ہے۔ اسی طریقے سے کوئی یہ کہے کہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے جو 1976میں اس شرح کی تکمیل کا کام ”تکملہ فتح الملہم” کے نام سے شروع کیا اور اَٹھارَہ سال نو مہینے کے بعد1994ء کو ”تکملہ فتح الملہم” کا کام چھ جلدوں کی صورت میں پایۂ تکمیل کو پہنچایا ، اس میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے کیا کمال کیا؟ یہی کام تو مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر بہت ہی قلیل عرصے میں انجام دے لیں گے، آپ صرف ان مصنوعی ذہانت کے کمپیوٹر پروگرامز کو حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی قدس سرہ کی تحریر کا اسلوب بتا دیجئے، پھر دیکھئے ان سافٹ وئیر کا کمال، کیسے وہ اس شرح کی تکمیل کرتے ہیں۔ قارئین یاد رکھیں کہ ہم یہ فرضی باتیں نہیں کہہ رہے بلکہ اسی دنیا میں ایسے صاحبِ علم حضرات موجود ہیں جو یہ باتیں کہتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر وہ قرآن پاک کی تفسیر سے متعلق ایسی باتیں کہتے ہیں۔ معاذاللہ۔

دیکھیے، پھر تو قرآن پاک کے متعلق بھی تو کچھ لوگ یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی تو ڈکشنری کے لفظوں پر مشتمل ایک تحریر ہے مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ قرآن پاک کو دنیا کی تمام تحریروں پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ یہ ڈکشنری کے لفظوں کا ہیر پھیر نہیں بلکہ یہ ”کلام اللہ” ہے۔ قرآن پاک کے ہر ہر لفظ کی عظمت ہے، اسی لیے”قرآنِ مجید مصحف میں دیکھ کر پڑھنا افضل ہے، اس لیے کہ مصحف کو دیکھنا، اس کو چھونا اور اس کو اٹھانا، یہ اس کا احترام ہے، اور اس میں معانی میں زیادہ تدبر کا موقع ملتا ہے، نیز اس میں ادب بھی زیادہ ہے” (حوالہ: دارالافتائ: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)۔ نیز ”قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انسان وجنات کی رہنمائی کے لیے آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق نہیں۔ قرآن کریم لوحِ محفوظ میں ہمیشہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو فیصلے ملأ اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر تحریر ہیں، وہ کسی بھی تبدیلی سے محفوظ ہونے کے ساتھ شیاطین کے شر سے بھی محفوظ ہیں، اس لیے اس کو لوحِ محفوظ کہا جاتا ہے۔ اس کی شکل وصورت وحجم کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے، مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں ہم اس پر ایمان لائے ہیں” (حوالہ: مفتی محمد نجیب قاسمی سنبھلی، قرآن کریم کا تعارف اور ہماری ذمہ داری، ماہنامہ بینات، اپریل۔ مئی 2020ئ)۔

اسی طریقے سے احادیث مبارکہ کے متعلق بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ صرف ڈکشنری کے لفظوں کے ہیر پھیر سے کلام بنایا گیا ہے مگر یہ کہنا درست نہیں کیونکہ عام محدثین کی اصطلاح میں حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہر چیز کو حدیث کہا جاتا ہے (حوالہ: دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)، جبکہ ایک عام آدمی حدیث سے یہ مراد لیتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف منسوب کلام ہے۔ اسی طریقے سے فقہائے کرام کے اقوال پر بھی کوئی یہ غلط منطق لگا سکتا ہے۔

آج کل کے مروجہ عالمی قوانین کی مثال لے لیتے ہیں۔ کوئی یہ بھی تو کہہ سکتا ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس، اور پاکستان کے آئین بھی تو اسی ڈکشنری کے لفظوں کی مرہونِ منت ہیں مگر ان ملکوں کے آئین کی قانونی حیثیت سب کو معلوم ہے۔ اسی طریقے سے سپریم کورٹ سے جاری ہونے والے فیصلے بھی تو اسی ڈکشنری کے لفظوں کی ہیر پھیر ہیں مگر ان لفظوں کی اپنی افادیت، اثر اور قانونی حیثیت ہے۔ دیکھئے اگر کسی جرم کی سزا میں سپریم کورٹ کا جج فیصلہ کرتا ہے اور مجرم کو عمر قید کی سزا ملتی ہے تو کیا کوئی اس سزا کو ٹال دے گا اور کہے گا کہ یہ تو محض ڈکشنری کے لفظوں کا ہیر پھیر ہے؟

نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ اس سپریم کورٹ کے جج کی اس تحریر کی اپنی ایک قانونی حیثیت ہے اور اس تحریر کا ایک اثر پڑتا ہے اور ایک مجرم کو عمر قید کی سزا ملے گی۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہم مصنوعی ذہانت کے پروگرام مثلاً چیٹ جی پی ٹی سے اسی طریقے کا فیصلہ لکھوا لیتے ہیں جو کہ اس سپریم کورٹ کے جج کے فیصلے کے متن سے شاید زیادہ فصیح و بلیغ ہو مگر کیا اس تحریر کی کوئی قانونی، اخلاقی، سیاسی، اور علمی و عملی حیثیت ہوگی؟ نہیں! بس اسی طریقے سے کلام اللہ، احادیثِ مبارکہ، فقہائے کرام کے اقوال اور دیگر اہم تحریروں کو ہم چیٹ جی پی ٹی سے لکھوا کر اصل کلام اللہ، اصل احادیث مبارکہ، اور اصل فقہائے کرام کے اقوال کے مساوی ہر گز ہرگز قرار نہیں دے سکتے۔ جو لوگ مصنوعی ذہانت اور چیٹ جی پی ٹی سے حد درجہ تک متاثر ہیں تو کیا وہ لوگ خود اپنی عملی زندگی میں بھی اس کو ہر شعبے میں استعمال کرتے ہیں؟ کیا ایسے لوگوں نے ڈاکٹر و سرجن کے پاس جانا چھوڑ دیا؟ کیا اپنے قانونی معالات کے تَصفِیَہ کے لیے کورٹ کچہریوں میں جانا چھوڑ دیا؟ کیا گھر میں پلبمر، الیکٹریشن، اور بڑھئی کو بلوانا چھوڑ دیا؟ کیا اپنے بچوں کو یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا؟ یقیناً ایسے لوگ بھی اپنے سارے کام چیٹ جی پی ٹی سے نہیں کرواتے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ دینی علوم کو ہی اپنا تختہ مشق بناتے نظر آتے ہیں؟ (جاری ہے)