سانحہ پہلگام پہلا واقعہ نہیں ہے جب پاک بھارت کشیدگی عروج کو پہنچی ہو۔ اس خطے کی بدقسمتی رہی ہے کہ تخت برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے دونوں ممالک نے صحیح معنوں میں اک دوجے کے وجود کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ پاکستانی دہلی کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ اسی طرح بھارتی افغانستان سے لیکربرما یعنی میانمار تک اکھنڈ بھارت کا تصور دلوں میں تھمائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان، بھارت و دیگر سارک ممالک کی آبادی تقریباً دو ارب افراد پر مشتمل ہے جو دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 25فیصد بنتی ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے افراد کی اکثریت دنیا میں رائج خطِ غربت کے آخری درجوں سے بھی نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہے۔ چاہتے نہ چاہتے ہوئے ان کا معیارِ زندگی یورپ کے سب سے کم ترقی یافتہ ملک کے برابر تک نہیں پہنچ پا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ خطے کے افراد اپنا میعار زندگی بہتر بنانے کے لئے دنیا کے کئی ممالک میں روزگار کے سلسلہ میں مقیم ہیں۔
بلاشک و شبہ تاریخی اعتبار سے بھارت کے توسیع پسندانہ و اکھنڈ بھارت اقدامات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، چاہے وہ ریاست جموں کشمیر پر قبضہ ہو یا پھر ہمسایہ ممالک نیپال، بھوٹان، سری لنکا، میانمار کو دباؤ میں لاکر اندرونی معاملات میں برہنہ مداخلت اور بغاوتوں میں معاونت کرنا اور مقامی ہینڈلرز کو اپنی ریاست سے برسرپیکار کروانا ہو۔ ماضی میں سب سے بڑی مثال مشرقی پاکستان کو ریاست پاکستان سے الگ مملکت بنوانے میں بھارتی ریاست کا مکروہ چہرہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اسی طرح عرصۂ دراز سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسند افراد کے ساتھ ملی بھگت سے خطے کو غیرمستحکم کرنا اور خصوصاً صوبہ بلوچستان کو پاکستانی ریاست سے کٹوا کر علیحدہ مملکت قائم کرنے کے لئے اندرون خانہ پراکسی وار اور خارجی سطحی پر دنیا کے بڑے بڑے پلیٹ فارمز پر بلوچستان میں آزادی کی تحریک ثابت کرنے کے لئے بھارتی ریاست ہر ممکن اقدامات کرتی دیکھائی دیتی ہے۔
بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کی بدولت طاقت کے توازن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستانی ریاست کو اسلحے کی دوڑ میں مسلسل شریک رہنا پڑتا ہے۔ یاد رہے برصغیر ایسا خطہ ہے جس کے حصول کے لئے ماضی میں عرب و یورپ کے کئی ممالک تگ و دو کرتے رہے ہیں۔ اس خطہ میں کچھ تو ایسا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے فاتحین نے اس علاقہ کو اپنے زیر نگین کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ماضی میں دنیا کے عظیم فاتحین خطہ برصغیر ہند کو فتح کرنے کے لئے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ تشریف لاتے رہے مگر بدقسمتی سے آج اسی خطے کی عوام یورپ، مشرق وسطیٰ میں بہتر زندگی کی تلاش میں قسمت آزمائی کرتی دیکھائی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ نوجوانوں کی اکثریت موت کی پروا کئے بغیر ڈنکی لگا کر خوشحال ممالک تک رسائی کی طلبگار ہے۔ یاد رہے یورپی ممالک نے باہمی لڑائیاں لڑلڑ کر اور لاکھوں افراد مروا کر سبق حاصل کرلیا ہے کہ علاقائی توسیع پسندانہ پالیسیاں علاقے کی بربادی کا سبب بنتی ہیں۔ آج یورپ و دیگر ترقی یافتہ ممالک میں معاشی توسیع پسندانہ پالیسیاں ریاست و عوام کی خوشحالی کا باعث بن رہی ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے بڑوں کو سوچنا ہوگا کہ ہمارا خطہ عرب، یورپ و امریکا جیسا کیوں نہیں بن پایا اور ہمیں آخر کیا کرنا چاہیے کہ علاقے مین امن و شانتی اور خوشحالی کا دور دورہ ہو۔ جتنا سرمایہ اک دوجے کو نیچا کرنے اور عسکری طاقت دِکھانے کے لئے خرچ کیا جارہا ہے، اس سے آدھی رقم خطے کی عوام کی فلاح و بہبود اور تعلیم پر خرچ کی جائے تو کوئی شک نہیں اس علاقے کی خوشحالی یورپ و دیگر ترقیاتی ممالک سے بڑھ کر یا برابر نہ ہو۔ اس خطے کی تمام سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ دانشوروں کو بھی رائے عامہ ہموار کرنی ہوگی کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں کیونکہ جنگیں ہمیشہ تباہی ہی لاتی ہیں۔ بخاری شریف میں حدیث مذکور ہے کہ ایک جنگ کے موقع پر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگو! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے’۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی: اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے، بادل بھیجنے والے، احزاب (دشمن کے دستوں) کو شکست دینے والے، انہیں شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ ‘ہمارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی فرماتی ہیں۔ یعنی ہمیں ہر حال میں جنگ سے بچنا چاہیے، لیکن بالفرض اگر بھارت نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی قسم کی مہم جوئی کی تویہ بات طے شدہ ہے کہ پاکستانی قوم و افواج بھارتی عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوں گی اور اُمید ہے کہ اللہ کریم کی مدد بھی ہمارے ساتھ ہوگی۔