دوسری قسط:
جب ہم مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیرز سے قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر یا خلاصہ و تجزیہ کروا رہے ہوتے ہیں تو دراصل مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر یہ ترجمہ، تفسیر یا تجزیہ ”اگلے حروف کی پیش گوئی” کی بنیاد پر کرتے ہیں اور اس ترجمہ، تفسیر، تجزیہ، خلاصہ وغیرہ سے عام انسان کو یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ سافٹ وئیر خود سے کوئی بہت ہی زیادہ ذہانت والا مواد تخلیق کر رہے ہیں۔ دیکھیے اگر کمپیوٹر میں ہم قرآن پاک کی کئی عربی تفاسیر مثلاً تفسیر کبیر، تفسیر روح المعانی، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی اور تفسیر ابی السعود اور پھر متاخرین علماء کی اردو تفاسیر مثلاً معارف القرآن، بیان القرآن، تفسیر عثمانی اور آسان تفسیرِ قرآن از حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم مہیا کر دیں اور پھر کوئی کسی آیت کا کمپیوٹر سے ترجمہ پوچھے اور پھر کمپیوٹر مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اس آیت کی تفسیر اور ترجمہ ان تمام پہلے سے کمپیوٹر کو مہیا کی گئی تفاسیر سے لاکر دکھا دے تو علمائے کرام کے مطابق ایسا کرنا درست ہے اور اس طرح سے کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت سے علوم القرآن میں استفادہ کرنا درست ہے۔
اس کے برعکس اگر مصنوعی ذہانت کے پروگرامز کمپیوٹر میں مہیا کی گئی تمام تفاسیر، حتیٰ کہ پوری دنیا میں قرآن پاک کی جتنی تفاسیر آج تک لکھی گئی ہیں، ان سب سے استفادہ کرے اور پھر مصنوعی ذہانت خود سے ”اگلے حروف کی پیش گوئی” کی بنیاد پر اپنا تخلیق کردہ ترجمہ و تفسیر تیار کرے تو علمائے کرام کے مطابق ایسی کوئی بھی کوشش کسی بھی درجے میں قابلِ قبول نہیں۔ بس آج کل کے مصنوعی ذہانت کے پروگرامز و سافٹ وئیر مثلاً چیٹ جی پی ٹی وغیرہ کی یہی وہ صلاحیت اور طریقہ کار ہے جس کی جانب ہم اپنے اس مضمون میں قارئین کو توجہ دلا رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت میں کتنی ذہانت ہے؟ کیا مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت سے تجاوز کر جائے گی؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں کتنی ذہانت ہے؟ اور کیا مصنوعی ذہانت کے سسٹم انسانی ذہانت سے کہیں آگے نکل چکے ہیں یا نکلنے والے ہیں اور کیا مصنوعی ذہانت کے پروگرام (اور روبوٹس یا مشین) مستقبل میں اتنی ذہین ہوجائیں گی کہ انسانیت کو اس سے خطرہ لاحق ہوجائے گا؟ ان سوالات کا جواب ہم مصنوعی ذہانت کے ماہرین کمپیوٹر سائنسدانوں کی آرا کو سامنے رکھ کر سمجھتے ہیں۔ آج کل جو مصنوعی ذہانت کا چرچا ہمیں نظر آتا ہے اس کی تکنیکی اساس اور بنیادیں رکھنے والے سائنسدانوں میں پروفیسر یان لی کن شامل ہیں۔ یہ پروفیسر ان کمپیوٹر سائنسدانوں میں شامل ہیں جن کے سائنسی تحقیقی کاموں کی بدولت انہیں ”بابائے مصنوعی ذہانت” بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں کمپیوٹر سائنس کی دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ یعنی ٹیورنگ ایوارڈ سنہ 2018ء میں دیا گیا۔ ٹیورنگ ایوارڈ کو کمپیوٹر سائنس کا نوبل پرائز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کمپیوٹر سائنسدان دراصل ”نیورل نیٹ ورک” (مصنوعی ذہانت کا ایک شعبہ) کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں، جس کی بنیاد پر بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیاں اور چیٹ جی پی ٹی کام کرتے ہیں۔ پروفیسر یان لی کن فرانس نژاد امریکی کمپیوٹر سائنسدان ہیں اور نیویارک یونیورسٹی امریکا میں خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔ یہ میٹا کمپنی میں چیف اے آئی سائنٹسٹ ہیں۔ اس کے ساتھ یہ اے سی ایم فیلو بھی ہیں۔ نیچر جرنل، جو دنیا کے بہترین سائنسی جرائد میں سے ایک سائنسی جریدہ ہے، میں ان کا 2015میں چھپنے والا ”ڈیپ لرننگ” کے موضوع پر سائنسی تحقیقی مقالہ مصنوعی ذہانت کے بنیادی مآخذ میں سے ایک ہے جس کو سائنسی دنیا میں بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ مشہور کاروباری شخصیت اور سرمایہ کار ایلون مسک، جو ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے بانی بھی ہیں، سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کچھ ہی عرصے میں لارج لینگویج ماڈلز جیسے چیٹ جی پی ٹی انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ دے گی، جسے ”آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس” یعنی ”مصنوعی عمومی ذہانت” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پھر اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت اور روبوٹس اتنے ذہین ہوجائیں گے کہ ان کو کنٹرول کرنا انسان کے بس سے باہر ہو جائے گا جبکہ اس کے برعکس پروفیسر یان لی کن کہتے ہیں: ”مجھے ایسا لگتا ہے کہ فوری طور پر یہ معلوم کرنے سے پہلے کہ مصنوعی ذہانت کے پروگرامز جو ہم انسانوں سے زیادہ ذہین ہوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے، ہمیں ضرورت ہے کہ کوئی ایسا اشارہ ملے کہ کس طریقے سے ایسا مصنوعی ذہانت کا نظام بنایا جائے جس میں گھریلو بلی جتنی ذہانت ہو۔”
پروفیسر یان لی کن کہتے ہیں گو مصنوعی ذہانت کے کمپیوٹر پروگرامز (الگورتھم) بہت طاقتور ہیں مگر وہ نہیں سمجھتے کہ مصنوعی ذہانت سے انسانیت کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ مصنوعی ذہانت کسی بھی معنی میں ذہین نہیں ہے۔ نہایت اہم بات یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے کمپیوٹر پروگرامز ( الگورتھم) بنانے والے ہی یہ کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے اندر ایک عام سے جانور یعنی بلی جتنی بھی ذہانت نہیں ہے۔
”گھریلو پالتو بلی کے اندر جو صلاحیت، صفات اور ذہانت پائی جاتی ہے مثلاً یہ کہ وہ اپنے دماغ میں حقیقی دنیا کا ایک ماڈل بناتی ہے، اس کی قائم رہنے والی یادداشت، اس کی استدلال کی صلاحیت اور منصوبہ بندی کی استعداد، یہ سب چیزیں مروجہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز میں نہیں پائی جاتیں، حتی کہ ‘میٹا’ کمپنی کے اپنے بنائے گئے ماڈلز میں بھی نہیں۔”
”آج کل کے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز صرف متن کے اگلے حروف کی پیش گوئی کرتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے میں اتنے اچھے ہیں کہ وہ ہمیں بیوقوف بناتے ہیں اور ان کی یادداشت کی بہت زیادہ صلاحیت کی وجہ سے وہ استدلال کرتے دکھائی دے سکتے ہیں، جبکہ درحقیقت وہ معلومات کو محض اگل رہے ہوتے ہیں (یعنی معلومات کو دہرا رہے ہوتے ہیں بغیر تجزیہ یا سمجھے ہوئے۔) جس پر وہ پہلے ہی تربیت پا چکے ہوتے ہیں۔” (جاری ہے)