قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انسان وجنات کی رہنمائی کے لیے آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا۔ قرآن پاک کا مفہوم وہی معتبر اور صحیح ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا اور سمجھایا ہے۔ قرآن پاک کی تفسیر کا کام نہایت احتیاط کا متقاضی ہے اور ہرکس و ناکس کا یہ کام نہیں کہ وہ محض قرآنی تراجم پڑھ کر عقلی طور پر قرآن پاک کی تفسیر و تشریح کرنے بیٹھ جائے۔ اگر کوئی شخص محض اپنی عقل کے بل بوتے پر قرآن کا مفہوم سمجھے اور پھر اس کو منشائے الٰہی قرار دے تو اس کو قرآن دشمنی پر محمول کیا جائے گا۔ نیز اگر کوئی چاہے کہ لغت کی کوئی کتاب لے کر بیٹھ جائے اور اس میں الفاظ کے معنی دیکھ دیکھ کر قرآن کا مفہوم سمجھنا شروع کرے تو قیامت تک قرآن کا صحیح مفہوم نہیں سمجھ سکتا۔
آج کل مصنوعی ذہانت کا بہت چرچا ہے اور یہ بات عوام میں پھیلائی گئی ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سسٹم انسانی ذہانت سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے عنوان سے دین اور دینی علوم کی اساس کو نشانہ بنانے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں۔ باطل قوتوں کی یہ کوشش اور سوچ ہے کہ مصنوعی ذہانت یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا استعمال کرتے ہوئے قرآنِ پاک کی جدید تفسیر و ترجمہ کیا جائے۔ اس کیلئے براہ راست اگر یہود و نصاریٰ کو استعمال کیا جائے گا تو مسلمانوں میں اس تفسیر و ترجمہ قرآن کو قبولیتِ عامہ نہ مل سکے گی، البتہ اگر یہی تفسیر و ترجمہ کسی مسلمان بالخصوص برصغیر پاک وہند سے تعلق رکھنے والے کسی مسلمان نے کیا ہو تو اس تفسیر و ترجمہ قرآن کو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں قبولیت ملنے کے زیادہ امکانات ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں ہی میں سے کچھ صاحبانِ علم باطل قوتوں اور مستشرقین کے غیر دانستہ طور پر آلہ کار بن رہے ہیں اور مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے قرآن پاک کی تفسیر و ترجمہ پر کام کررہے ہیں اور ایسے سوالات اٹھا رہے ہیں جو بالکل نئی طرز کے ہیں۔ گو ایسے حضرات بڑے اخلاص سے ان باتوں کی ترغیب دیتے ہیں کہ ہم تو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو قرآن فہمی کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور مصنوعی ذہانت کو علومِ قرآن میں استعمال کر کے کئی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں، مثلاً اس سے مدارسِ دینیہ کے طلبائے کرام میں علمِ تفسیر میں علمی رسوخ، استعداد اور صلاحیت بڑھے گی مگر حقیقتِ حال یہ ہے کہ چونکہ ایسے لوگوں کو سائنسی علوم میں رسوخ نہیں، مصنوعی ذہانت کی تکنیکی باریکیوں و خامیوں کا علم نہیں، غالباً اسی وجہ سے وہ نادانستہ طور پر مصنوعی ذہانت کو قرآن فہمی میں استعمال کرنے کو فروغ دے رہے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ملکی و عالمی سطح پر ایسی کوششیں جاری ہیں کہ کس طریقے سے مصنوعی ذہانت کو علومِ قرآنی میں استعمال کیا جائے۔
اس مضمون میں ہم مفہومِ قرآن اور مصنوعی ذہانت سے متعلق کچھ سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کریں گے۔ اول مصنوعی ذہانت کے علومِ قرآنی میں استعمال سے کیا مراد ہے؟ دوم مصنوعی ذہانت میں کتنی ذہانت ہے؟ سوم کیا مصنوعی ذہانت سے قرآن کا صحیح مفہوم سمجھا جا سکتا ہے؟ چہارم کیا مصنوعی ذہانت سے قرآنِ پاک کا ترجمہ و تفسیر کی جاسکتی ہے اور کیا ایسا ترجمہ و تفسیر مسلمانوں کے نزدیک معتبر ٹھہرے گا؟
مصنوعی ذہانت کے علومِ قرآنی میں استعمال سے مراد
قارئین کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ کمپیوٹر تو سہولت لے کر آیا ہے اور کمپیوٹر کے استعمال سے تو علوم القرآن کی خدمت کی گئی ہے، مثلاً قرآن پاک کی طباعت کے اندر کمپیوٹر کے استعمال سے کس قدر امت کو فائدہ حاصل ہوا ہے۔ کمپیوٹر کے استعمال سے کسی خاص آیت، مضمون، یا حرف کو قرآن پاک میں ڈھونڈنا کتنا آسان ہوگیا ہے۔ لیپ ٹاپ یا موبائل فون پر کوئی قرآن پاک کی ایپلی کیشن کھولیے، کسی بھی آیت تک سیکنڈوں سے بھی کم وقت میں پہنچ جائیے، اس آیت کی شانِ نزول اور تفسیر مع حوالہ جات دیکھے جا سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کی مدد سے مختلف قرآت میں قرآن کی تلاوت سنی جا سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت میں ہونے والی ترقی کو مختلف طریقوں سے علوم القرآن میں استعمال کیا جا رہا ہے، مثلاً مختلف قاری حضرات کی تلاوت آڈیو میں موجود ہو تو مصنوعی ذہانت کے ذریعے پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ کون سی آیت کی قرات کس قاری نے کس لہجے میں کی ہے۔ آج کل تو مصنوعی ذہانت کے ایسے سافٹ وئیر دستیاب ہیں جس میں اگر کوئی شخص قرآن پاک کی تلاوت کرے تو کمپیوٹر یا موبائل اسکرین پر وہ سافٹ وئیر تلاوت کی گئی قرآنی آیات لکھنا شروع کر دے گا، جیسے جیسے وہ شخص تلاوت کرتا جائے گا، کمپیوٹر اسکرین پر وہ قرآنی آیت لکھتی چلی جائے گی، اگر کہیں غلطی ہوگی تو اس کی نشاندہی کر دے گی۔ اس طرح کے سافٹ وئیر بنانے والے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی تیار کردہ ایپلی کیشن قرآن پاک حفظ کرنے والوں کو حفظِ قرآن میں مدد فراہم کرے گی۔ نیز مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے اگر کوئی قاری کسی آیت کے پہلے حصے کی تلاوت کر رہا ہے تو اگلہ جملہ یا لفظ کون سا آئے گا، یہ صلاحیت بھی آج کل سافٹ وئیر کے اندر موجود ہے۔ اس سے بڑھ کر مصنوعی ذہانت سے قرآن پاک سے متعلق مختلف آرائ، تفاسیر اور تراجم، چند لمحوں میں ہمارے سامنے آ جاتے ہیں بلکہ یہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر ان کا تجزیہ بھی پیش کر دیتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت سے متاثر ہو کر بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ”مصنوعی ذہانت ہمیں قرآن کے ایسے پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے جو پہلے اوجھل تھے۔ اس سے ہر زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا جا سکتا ہے جس سے دنیا بھر کے لوگ قرآن کو اپنی زبان میں سمجھ سکتے ہیں۔” سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے علومِ قرآنی میں استعمال سے ہماری کیا مراد ہے؟ کیا مصنوعی ذہانت کو علوم القرآن میں استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر کیا جا سکتا ہے تو پھر مفتیانِ کرام اس کی حدود و قیود کیا بتاتے ہیں؟ اگر نہیں کیا جا سکتا تو کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ نیز بطور کمپیوٹر سائنسدان ہم کیوں یہ کہہ رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کو دینی علوم بالخصوص قرآنِ پاک کی تفسیر و ترجمہ کے لیے ہرگز ہرگز استعمال نہ کیا جائے؟
قارئین کو یہ واضح رہنا چاہیے کہ مصنوعی ذہانت کو علوم القرآن میں ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر خود سے مواد بنا رہے ہوتے ہیں۔ ”خود سے مواد” بنانے سے مراد یہ نہیں ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر میں کوئی اشرف المخلوق انسانوں جیسی تخلیقی صلاحیت و ذہانت آگئی ہے بلکہ مصنوعی ذہانت کے سسٹم بالخصوص لارج لینگویج ماڈلز چونکہ ”اگلے ٹوکن کی پیش گوئی” کی بنیاد پر کام کرتے ہیں یعنی اگلے جملوں کی پیش گوئی کر رہے ہوتے ہیں لہٰذا ان سافٹ وئیر کا کام کرنا قطعی طور پر بھی انسانوں کے سوچنے، سمجھنے اور انسانی ذہانت کے مقابل نہیں ہو سکتا۔ الغرض سائنسدانوں اور مصنوعی ذہانت کے ماہرین کے مطابق مصنوعی ذہانت کے ان کمپیوٹر پروگرامز کو انسانی ذہانت کے برابر تسلیم کر لینا سائنسی و تکنیکی طور پر درست نہیں۔ (جاری ہے)