دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جنگ کبھی بھی انسانیت کے لیے باعثِ فخر نہیں رہی، بلکہ یہ ہمیشہ عبرت کا نشان بنی ہے۔ جنگ کے شعلے جب بھڑکتے ہیں تو صرف فوجی محاذ ہی نہیں جلتے، بلکہ انسانوں کے خواب، معیشتیں، تہذیبیں، تاریخیں اور نسلیں راکھ میں بدل جاتی ہیں۔ انسان صدیوں تک جو ترقی، استحکام اور خوشحالی کے خواب بنتا ہے، جنگ کی ایک چنگاری ان خوابوں کو راکھ میں بدل دیتی ہے۔ عالمی جنگیں انسانی تاریخ کے بدترین واقعات میں شمار ہوتی ہیں۔ پہلی عالمی جنگ میں اندازا دو کروڑ انسان ہلاک ہوئے اور معاشی نقصان کا تخمینہ اس وقت کے لحاظ سے 208 بلین امریکی ڈالر لگایا گیا۔ یہ جنگ صرف یورپ تک محدود نہیں رہی، بلکہ دنیا بھر کو متاثر کر گئی۔
پھر دوسری عالمی جنگ ہوئی، جس نے تاریخ کو لرزا کر رکھ دیا۔ اس میں تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ لوگ ہلاک ہوئے، جن میں بیشتر عام شہری تھے۔ صرف سوویت یونین کو کئی ملین جانوں کا نقصان ہوا۔ جرمنی، جاپان اور برطانیہ جیسے ممالک کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ جاپان کے دو شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے ایٹم بم نے ایک نئی ہولناکی کو جنم دیا۔ آج بھی وہاں کے لوگ ان اثرات سے مکمل طور پر نہیں نکل سکے۔ یہ جنگیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ جنگ صرف فوجی محاذ پر لڑنے والوں کی کہانی نہیں، بلکہ لاکھوں خاندانوں کی بربادی، شہروں کی ویرانی، معیشت کی تباہی اور انسانیت کی بے بسی کا استعارہ بن جاتی ہے۔
مشرقِ وسطی کی زمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن بدقسمتی سے جنگوں، خانہ جنگیوں اور بیرونی مداخلتوں نے اسے قبرستان میں بدل دیا ہے۔ عراق پر 2003میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے حملہ کیا۔ صرف 2003سے 2011 تک تقریباً 5لاکھ افراد مارے گئے۔ اس جنگ نے عراق کی معیشت، تعلیمی نظام، صحت کا شعبہ اور سماجی ڈھانچہ مکمل طور پر برباد کر دیا۔ شام میں خانہ جنگی نے ساڑھے 6 لاکھ سے زائد افراد کی جان لی، جبکہ ایککروڑ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے۔ یمن، جو پہلے ہی غریب ملک تھا، آج دنیا کا بدترین انسانی بحران جھیل رہا ہے۔ فلسطین، جہاں اسرائیل کی مسلسل جارحیت جاری ہے، گزشتہ چند دہائیوں میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوںزخمی و بے گھر ہو چکے ہیں۔ صرف غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت میں پچاس ہزار سے زائد فلسطینی شہید، لاکھوں زخمی اور بے شمار عمارتیں مٹی کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ اسپتال، اسکول، پناہ گاہیں اور عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ یہ سب جنگ کے ثمرات ہیں۔
پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا کے دو بڑے ملک ہیں۔ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور ان کے درمیان تین بڑی جنگیں اور کارگل جیسا معرکہ ہو چکا ہے۔ ان جنگوں میں دونوں طرف سے مجموعی طور پر بے شمار جانوں کا نقصان، اربوں روپے کا مالی خسارہ اور عوامی ترقی کا سفر متاثر ہوا۔ 1971کی جنگ، جس میں مشرقی پاکستان الگ ہوا، ایک تاریخی المیہ تھا۔ اس جنگ کے بعد پاکستان کو اقتصادی، سیاسی اور سماجی بحران کا سامنا کرنا پڑا، جس کے اثرات آج تک مکمل ختم نہیں ہو سکے۔ آج جب دنیا ترقی، ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت اور معیشت کی دوڑ میں ہے، لیکن بھارت کی حکومت اور اس کا میڈیا آئے دن جنگی نعرے لگاتے ہیں۔ بھارتی قیادت کی زبان پر جنگ کرنے، پاکستان کو سبق سکھانے، لائن آف کنٹرول پار کرنے اور سرجیکل اسٹرائیکس کے بلند بانگ دعوے سنائی دیتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے، بلکہ پورے خطے کو ایٹمی جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کرتا ہے۔
بھارت میں مودی کی حکومت اور وہاںکے سیاست دان بے حد خود غرض اور مفاد پرست ہیں، اپنی سیاست چمکانے اور الیکشن میںکامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر بار پاک بھارت سرحدوں پر لڑائی شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ملک میں خود ہی حملے کروا کر پاکستان پر الزام لگا دیتے ہیں اور اس کی بنیاد پر پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں۔ حالانکہ بھارت کو اپنے ملک سے غربت ختم کرنی چاہیے۔ آج بھی بھارت میں کروڑوں گھروں میں واش روم نہیں ہیں۔ 2024کی عالمی رپورٹ کے مطابق بھارت میں غربت کی شرح 22فیصد سے زائد ہے۔ 25کروڑ سے زیادہ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ صحت اور تعلیم کے شعبے بدحالی کا شکار ہیں۔ کسان خودکشیاں کر رہے ہیں، اقلیتیں غیر محفوظ ہیں اور نوجوان روزگار کے لیے ترس رہے ہیں۔ ایسے میں جنگ کی باتیں دراصل عوام کی توجہ اصل مسائل غربت، مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری سے ہٹانے کی چال ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ہر بڑی جنگ کے بعد متاثرہ ملک کی معیشت کو بحال ہونے میں 15 سے 20 سال لگتے ہیں۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق شام کی جنگ نے ملک کو 226 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ عراق کی جنگ نے امریکی معیشت سے بھی تقریباً 2.4 ٹریلین ڈالر نکال لیے، لیکن نتیجہ آج بھی عدم استحکام ہے۔ افغانستان میں امریکا اور نیٹو کے 20سالہ قبضے کے دوران ہزاروں افراد مارے گئے اور ملک تباہی کے دہانے پر پہنچا۔ اگر یہی سرمایہ، وقت، توانائیاں اور وسائل جنگ کی بجائے تعلیم، صحت، ٹیکنالوجی، زراعت اور صنعت پر خرچ کیے جائیں تو پورا خطہ ترقی کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی کوریا، جو 1950کی دہائی میں جنگ سے تباہ ہوا، آج دنیا کی 10بڑی معیشتوں میں شامل ہے۔ اس نے تعلیم، ٹیکنالوجی اور انسانی ترقی پر توجہ دی۔ جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے بعد صرف 20سال میں دنیا کی مضبوط معیشتوں میں جگہ بنا لی۔ جاپان، جس پر ایٹم بم گرا تھا، آج دنیا کی ٹاپ ٹیکنالوجی ایکسپورٹر اقوام میں شامل ہے۔ پاکستان اور بھارت اگر تعلیم، تجارت، انفراسٹرکچر، ماحولیاتی تحفظ، اور علاقائی روابط کو ترجیح دیں تو یہ پورا خطہ دنیا کا خوشحال ترین خطہ بن سکتا ہے۔ امن اور ترقی ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں، لیکن جنگ اور ترقی کبھی ساتھ نہیں چل سکتے۔
جنگ جیتنے والا بھی ہارتا ہے اور امن قائم رکھنے والا بھی جیتتا ہے۔ دنیا کے باشعور، ترقی یافتہ اور دور اندیش ممالک اس اصول کو سمجھ چکے ہیں۔ اب جنوبی ایشیا کے رہنماؤں اور عوام کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اپنی نسلوں کو بہتر مستقبل دینا چاہتے ہیں تو ہمیں نفرت کی بجائے محبت، جنگ کی بجائے امن اور تصادم کی بجائے تعاون کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اگر بھارتی حکومت ہوش کے ناخن لے تو اسے یہ احساس ہوگا کہ جنگ کی باتیں کرنا قومی خدمت نہیں، بلکہ قومی مفاد کے خلاف سنگین سازش ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے، مذاکرات کی حمایت کی ہے اور جنگ سے گریز کا راستہ اپنایا ہے، لیکن یہ امن ہماری کمزوری نہیں، ہمارا اصول ہے اور اگر اصولوں پر کوئی وار کرے تو پاکستان کا بچہ بچہ اس کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کے عوام اور افواج اگرچہ امن پسند ہیں، مگر اگر جنگ مسلط کی گئی تو یہ قوم ہر قسم کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ پاکستانی قوم کے دلوں میں ایمان کی حرارت اور شہادت کا جذبہ زندہ ہے۔ یہ قوم جنگ سے نہیں ڈرتی، بلکہ اپنی سرزمین، اپنی اقدار، اپنی آزادی کے لیے جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ پاکستان کی افواج دنیا کی بہترین پیشہ ور افواج میں شامل ہیں اور عوام ان کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔