نئی دہلی/گوہاٹی /اسلام آباد: پہلگام فالس فلیگ کے بعد انتہا پسند ہندوئوں کا مسلمانوں پر تشدد اور انتشار بڑھنے لگا۔بھارتی میڈیا کے مطابق نینی تال میں انتہا پسند ہندوئوں نے مسلمانوں کی دکانوں کو توڑا اور لوٹ مار کی مگر پولیس خاموشی سے سارا معاملہ سامنے کھڑی دیکھتی رہی۔
انتہا پسند ہندوئوں کی درندگی کے خلاف بھارتی شہری شاہیلہ نگی نے آواز اٹھائی اور ہجوم کے سامنے ڈٹ گئی، نہتی لڑکی دکانوں کو بچانے کی کوشش کرتی رہی۔شاہیلانگی کو مسلمانوں کا ساتھ دینے پر انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں مگر وہ بہادری سے ان شرپسندوں کیخلاف ڈٹ گئی۔
شاہیلانگی نے کہا کہ پہلگام میں جو ہوا اسے انتہا پسند ہندو ہتھیار بنا کر دنگا فساد کر رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ انتہا پسند اپنی سوچ دیکھے یہ تمہاری سوچ ہے جو تمھیں سڑکوں پر لے آئی، انتہا پسند ہندوئوں کا مقصد صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور دنگا فساد کرنا ہے۔
سچ بولنے پر مجھے انتہا پسند ہندوئوں کی طرف سے ریپ کی دھمکیاں مل رہی ہیں، میں نہیں ڈروں گی کیونکہ سچ کی طاقت میرے ساتھ ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ انتہا پسند ہندوئوں کی سوچ نے پورے بھارت کو لپیٹ میں لے لیا، مودی کی لگائی گئی آگ اسے ہے جلا کر راکھ کر دے گی۔
ادھرمسلمانوں کے خلاف بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر جاری کریک ڈائون کے دوران پہلگام حملے کے بعد مبینہ طور پر پاکستان کا دفاع کرنے کے الزام پر ریاست آسام سے ایک اور شخص کوگرفتار کیا گیاہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اس بات کی تصدیق آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے کی۔اس کے ساتھ ہی اس طرح کے معاملات میں مجموعی طوپر 37افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضلع دھوبری سے گرفتار شخص کی شناخت عمار علی کے نام سے ہوئی ہے۔دوسری جانب کشمیر میڈیا سروس کے مطابق” انڈیا ہیٹ لیب ”کی ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 22اپریل سے 2مئی کے درمیان بھارت کی نو ریاستوں اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں کل 64نفرت انگیز واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
پہلگام حملے کے بعد 10دنوں میں 64مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر کے واقعات ریکارڈ کیے گئے،رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ مہاراشٹرا 17واقعات کے ساتھ سرفہرست ہے، اس کے بعد اتر پردیش میں 13 ، اتراکھنڈ اور ہریانہ میں چھ چھ واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ باقی واقعات راجستھان، مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش، بہار اور چھتیس گڑھ میں پیش آئے۔
پہلگام واقعے کے بعد وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، انترراشٹریہ ہندو پریشد، راشٹریہ بجرنگ دل، ہندو جن جاگرتی سمیتی اور ساکل ہندو سماج سمیت مختلف ہندوتوا تنظیموں نے مختلف خطوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے منظم انداز میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کی ۔
ان تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف ریلیوں اور عوامی اجتماعات کا اہتمام کیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جارحانہ بیانیے کا پرچار کیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان دس دنوں کے دوران انتہاپسند تنظیموں سے وابستہ مقررین نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی توہین آمیز زبان استعمال کی۔
مسلمانوںکے خلاف تشدد کو بھڑکاتے ہوئے ان کیلئے سبز سانپ،سور،کیڑے اور پاگل کتے جیسی اصطلاحات استعمال کیں۔زیادہ تر نفرت انگیز تقاریر 23اور 29اپریل کے درمیان ہوئیں جو اتر پردیش، ہریانہ، بہار، ہماچل پردیش اور مہاراشٹرسمیت کئی ریاستوں میں مختلف تقریبات کے دوران کی گئیں۔
ایسے ہی ایک پروگرام میں بی جے پی کے رکن اسمبلی نند کشور گرجر بھی موجود تھے جنہوں نے ہندوتوا لیڈروں کے ساتھ کھلے عام مسلمانوں کے معاشی اور سماجی بائیکاٹ کی اپیل کی اور عوام پر ہتھیار اٹھانے پر زوردیا۔
دریں اثناء اسلامی تعاون تنظیم کے تحت کام کرنے والے مستقل آزاد انسانی حقوق کمیشن نے بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسلاموفوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور مسلمانوں پر حملوں میں خطرناک اضافے پر شدید تشویش اور مذمت کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن نے حالیہ پہلگام واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔او آئی سی نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان نفرت انگیز حملوں کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کرائے تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں۔
کمیشن نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی سزا، سیاسی قید اور بنیادی آزادیوں پر پابندیاں لگا کر ظلم کر رہا ہے۔او آئی سی نے ایک بار پھر 5 اگست 2019ء کو بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو مسترد کر دیا اور مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ اور او آئی سی کے مشن کی رسائی کا مطالبہ کیا۔
انسانی حقوق کمیشن نے سیاسی قیدیوں کی رہائی، بنیادی حقوق کی بحالی، اور عالمی فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کی اپیل بھی کی ہے۔او آئی سی نے اپنا دیرینہ مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں آزادانہ و منصفانہ رائے شماری کرائی جائے تاکہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیا جا سکے۔