دینی مقدسات سے تشبیہ ومماثلت کا خطرناک رجحان!

ہم ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی یا وابستگی کا حصہ نہیں ہیں، البتہ دینی’ ملّی’ ملکی اور قومی مسائل پر اپنا موقف وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہتے ہیں اور ہر حکومتِ وقت کے قابلِ اعتراض اور دینی وقومی مفاد کے منافی اقدامات سے برملا اختلاف کرتے ہیں اور یہ سب ریکارڈ پر موجود ہے۔ کچھ عرصے سے ہماری سیاست میں ایک خطرناک رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ اپنی حکومت کو’ جو خیر وشر کا مجموعہ ہوتی ہے’ ریاستِ مدینہ سے تشبیہ دینا کسی بھی درجے میں قابلِ قبول نہیں ہے۔

زمان پارک لاہور کے سامنے ایک بچے کی زبانی پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کے والدین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والدینِ کریمین سے تشبیہ دی گئی۔ ہم نے اسی وقت ٹویٹ کے ذریعے اس کا مواخذہ کیا’ دو تین دن بعد سینیٹر اعجاز چودھری صاحب کا بیان آیا کہ ”وہ تو معصوم بچہ تھا”۔ ہم نے کہا: ہمارا سوال یہ ہے کہ بچے کے منہ میں یہ الفاظ کس نے ڈالے؟ نیز اسٹیج پر پی ٹی آئی کے رہنما اعظم سواتی اور فیصل جاوید اس پر تالیاں بجا رہے تھے، کیا وہ بھی بچے ہیں؟ کیا انہوں نے اور خود خان صاحب نے اس دعوے سے برأت کا اعلان کیا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معافی مانگی’ ایسی کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے۔ یہ بھی کہا گیا: خان صاحب کے کارکن رسول اللہ کے صحابہ کی طرح ہیں۔ یہ ریمارکس بھی گستاخانہ ہیں۔

حال ہی میں سابق صدرِ پاکستان عارف علوی صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو جو مقبولیت عطا کی ہے’ وہ بعض انبیاء کو بھی عطا نہیں کی۔ انبیائے کرام سے یہ مماثلت انتہائی قابلِ اعتراض’ نامناسب اور گستاخانہ ہے۔ اگر بعض انبیائے کرام علیہم السلام کے پیروکار تعداد میں کم تھے تو یہ ان انبیائے کرام کی ناکامی نہیں ہے، انہوں نے تو اپنے اپنے ادوار میں دعوتِ حق کا ابلاغ کیا۔ قرآنِ کریم کی آیاتِ مبارکہ اس پر شاہدِ عدل ہیں۔ انبیائے کرام پر ایمان نہ لانا اور ان کی پیروی نہ کرنا یہ انبیاء کی ناکامی نہیں’ بلکہ ان اقوام کی سنگدلی’ بدقسمتی اور محرومی ہے’ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی بعض قوموں پر عذاب بھی نازل ہوتے رہے’ جن کی تفصیل قرآنِ کریم میں موجود ہے۔

بتایا گیا ہے کہ جناب عارف علوی نے اگر مگر اور چنیں وچناں کے بغیر اپنے ان الفاظ پر غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔ یہ معافی انہیں مسلمانانِ پاکستان اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم سے مانگنی چاہیے’ ہم ان کے اس رویے کی تحسین کرتے ہیں اور تمام سیاسی رہنمائوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ انبیائے کرام ورسلِ عظام علیہم السلام سے مماثلت ومشابہت کے دعوے نہ کریں اور جو ماضی میں کر چکے ہیں’ وہ سب بھی اس پر غیر مشروط توبہ کریں۔

علمائے کرام کو فتوے جاری کرنے کا شوق نہیں ہے اور نہ یہ کوئی خوشگوار کام ہے’ لیکن دین کے خادم ہوتے ہوئے علماء کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کے مقدسات کا تحفظ ودفاع کریں اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی بروقت نشاندہی کریں اور ان سے اپنے دعووں سے برأت اور توبہ کا مطالبہ کریں۔ ہمارے نزدیک کائنات کا کوئی بڑے سے بڑا مقبول سیاستدان یا عوامی رہنما اللہ کے کسی نبی کی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں ہو سکتا’ چہ جائیکہ ان کا مماثل یا ان سے افضل قرار دیا جائے۔ بعض بدنصیب لوگ اپنے سیاسی رہنمائوں سے قربت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم کی ناراضی سے بھی گریز نہیں کرتے اور اسی لیے ابتلا سے دوچار ہوتے ہیں۔

ان رہنمائوں نے اپنی ذات کے اردگرد عقیدت کا ایسا ہالا بنا رکھا ہے کہ کوئی ان کی کسی غلطی کی نشاندہی کرے تو وہ بدنصیب پیروکار غلطی کا ادراک کرنے’ اس سے رجوع کرنے اور اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور غیر مشروط توبہ کرنے کی بجائے اپنی غلطی کا دفاع کرتے ہیں۔ اس کی نشاندہی کرنے والوں کو طعن وتشنیع اور ملامت کا ہدف بناتے ہیں’ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو’ تو وہ گھمنڈ میں مبتلا ہوکر (اور) گناہ کرتا ہے’ سو اس کے لیے جہنم کافی ہے اور وہ ضرور برا ٹھکانا ہے اور لوگوں میں سے ایک شخص ایسا بھی ہے جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان کو بیچ دیتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے۔” (البقرہ: 206تا 207)۔ (2) ”پس کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا’ جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے اس کو علم کے باوجود گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا’ پس اللہ کے (گمراہی میں چھوڑنے کے) بعد اسے کون ہدایت دے گا’ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔” (الجاثیہ: 23)

اللہ تعالیٰ اور انبیائے کرام علیہم السلام کے حضور اس طرح کی جسارتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو آخرت کو بھلا دیتے ہیں اور اس دنیا ہی کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اور انہوں نے کہا: ہماری تو صرف یہی دنیا کی زندگی ہے’ ہم (اسی دنیا میں) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہلاک کرتا ہے اور درحقیقت انہیں اس کا کچھ علم نہیں’ وہ توصرف خوش گمانیوں میں مبتلا ہیں۔” (الجاثیہ: 24)

زید بن عمرو بن نفیل نے اسلام کا زمانہ نہیں پایا تھا’ وہ فطرتِ سلیم کے حامل تھے’روایت میں ہے: ”اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں: میں نے دیکھا: زید بن عمرو بن نفیل کعبة اللہ سے ٹیک لگائے ہوئے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے: اے اہلِ قریش! واللہ! میرے سوا تم میں سے کوئی دین ابراہیم پر نہیں ہے اور وہ زندہ درگور کی ہوئی لڑکی کو بچاتے تھے اور اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے والے شخص سے کہتے: رک جا! اس (بے قصور) کو قتل نہ کر’ اس کی کفالت کی ذمہ داری میں اٹھائوں گا’ وہ اسے اپنی کفالت میں لے لیتے اور جب وہ بچی بالغ ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے: اگر تم چاہو تو میں اب اسے تمہاری تحویل میں دے دیتا ہوں اور اگر تم چاہو تو میں اس کی ساری ذمہ داری اپنے ذمے لیتا ہوں۔” (بخاری: 3828) چنانچہ ان کے فرزند سعید بن زید بیان کرتے ہیں: ”میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! جیساکہ آپ نے دیکھا اور آپ تک خبر پہنچی ہے کہ میرے والد (زید بن عمرو بن نفیل) فطرتِ سلیم کے حامل تھے اور اگر انہوں نے آپ کا زمانہ پایا ہوتا تو آپ پر ایمان لاتے اور آپ کی پیروی کرتے’ تو کیا میں ان کے لیے استغفار کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں! (تم ان کے لیے استغفار کرو) وہ قیامت کے دن اکیلے ایک امت کے طور پر اٹھائے جائیں گے۔” (مسند احمد: 1648)

مقامِ غور ہے کہ دینِ فطرت اور دینِ توحید پر قائم رہنے والے زید بن عمرو بن نفیل نے نبوت کا زمانہ پایا’ نہ کلمہ اسلام پڑھا اور نہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانے کا موقع ملا’ لیکن چونکہ وہ موَحِّد تھے’ ملّتِ ابراہیمی پر قائم تھے’ کفر وشرک اور اس دور کی بداعتقادیوں اور بدعملیوں سے بچے رہے’ نیز قریشِ مکہ کو ان کی بداعتقادیوں اور بدعملیوں پر متنبہ بھی کرتے تھے’ زندہ درگور کی جانے والی بے قصور بچیوں کی کفالت کرتے تھے’ پس رسول اللہ نے فرمایا: ”انہیں قیامت کے دن اکیلے ایک امت کے طور پر اٹھایا جائے گا۔” واضح رہے کہ یہ یکے از عشرہ مبشرہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے والد تھے۔ تو جب دینِ توحید کے حامل ایک شخص کا دین میں اتنا بلند مقام ہے کہ اسے اکیلے امت کے طور پر اٹھایا جائے گا تو انبیائے کرام علیہم السلام کے مرتبے اور مقام کا عالَم کیا ہوگا۔ قرآنِ کریم میں خود ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ”بے شک ابراہیم (اپنی ذات میں تنہا) ایک امت تھے’ اللہ کے اطاعت گزار’ تمام باطل ادیان کو چھوڑ کر دینِ حق پر قائم رہنے والے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔ اس کی نعمتوں کے شکر گزار تھے’ اللہ نے ان کو منتخب فرما لیا تھااور ان کو سیدھے راستے کی ہدایت دی۔” (النحل: 120تا 121)