مؤمن خان مؤمن نے کہا تھا کہ
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
مودی ہیجان کے ذریعے اقوام عالم کو گمراہ کرنے اور پاکستان کو ڈرانے کے خواہاں تھے۔ حالات نے انہیں بیک فائر پر مجبور کر دیا۔ اب وہ ”پائے رفتن نہ جائے ماندن” کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ الزامات کی آگ اب ان کا پیچھا کر رہی ہے اور وہ اس کے شعلوں سے بھاگ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے حربی ٹولے اجیت ڈوول، امیت شا اور راج ناتھ کے لیے اداسی بال کھولے انہیں چڑا رہی ہے
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
پاپولزم سیاسی قیادت کی ضرورت اور ایک ہیجان ہے’ جس میں عوام کو مسلسل مبتلا رکھا جاتا ہے، تاکہ غور وفکر اور ٹھہراؤ کا کوئی لمحہ ان کی زندگی میں نہ آئے جبکہ ترقی کا سرمایہ دارانہ ماڈل استحکام کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہیجان اور استحکام ہم قدم نہیں ہو سکتے۔ مودی نے ایک طرف ہندو شناخت کی بنیاد پر انڈیا میں ہیجان پیدا کر کے عوام کا جذباتی استحصال کیا، دوسرا اس کی کوشش ہے کہ ہندوستان کی تاریخ سے اسلام اور مسلمانوں کے نقوش مٹا دیے جائیں۔
ہندوتوا سے بھارتی مسلمانوں میں اضطراب فطری امر تھا۔ 24کروڑ افراد اقلیت نہیں ہوتے’ اگر انہیں اپنی منفرد تہذیبی شناخت پر اصرار ہو۔ ان کا تشخص مان کر انہیں سماج کا مفید حصہ اور مشتعل کر نے کا نتیجہ اضطراب ہے۔ جو استحکام کیلئے زہرِ قاتل ہے۔ اسی طرح جنگ استحکام کی دشمن ہے۔ جنگ ہونے سے قوم تو بن جاتی ہے مگر معیشت کا دھڑن تختہ ہو جاتا ہے۔ مودی جنگ کرتے تو میدانِ کارزار میں اس کا نتیجہ جو بھی ہو’ معاشی میدان میں ہار یقینی ہے۔ میدانِ کارزار میں بھارت خود کو چین کا مدمقابل سمجھتا ہے مگر پاکستان کا خوف چین نہیں لینے دیتا۔ بھارتی میڈیا کی چیخ وپکار سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے۔ آغاز ہی میں خوف دامن گیر ہو تو جنگ جیتنا درکنار’ اس کے خیال ہی سے جھرجھری آ جاتی ہے۔ کچھ لوگ سیاست کو کرکٹ اور مودی اسے چائے سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چھکا لگنے یاکیتلی میں ابال آنے سے بات بن جاتی ہے۔ مودی اسی نفسیات کے زیرِ اثر طبلِ جنگ بجا بیٹھے’ یہ سوچے بغیر کہ اس کی ایک قیمت انہیں بہرصورت چکانی ہے۔
پاکستانی سوشل میڈیا’ میڈیا اور عوام نے زیادہ بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا۔ پاپولسٹ نرگسیت کے مریض ہوتے ہیں’ اس لیے وہ ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں جو ان کی ذات ہی نہیں’ دوسروں کو بھی نقصان پہنچائے۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں۔ طیش کے باوجود بھارت ابھی تک حملہ نہ کر سکا جس کی ایک اہم وجہ تو پاکستان کا ذمہ دارانہ موقف ہے۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے مطالبے نے عالمی سطح پر بھارت کو مظلوم اور معصوم نہیں بننے دیا۔ عالمی میڈیا نے اِس واقعہ کو محض ایک خبر کے طور پر لیا۔ دراصل بھارت کے ماضی میں کئی فالس فلیگ آپریشن بے نقاب ہو چکے، اسی لیے 22اپریل کو جب بھارت کی جنونی قیادت نے دہشت گردی کی آہ و بکا کی تو کسی نے سنجیدہ نہ لیا۔ 2019کا فالس فلیگ بھی دنیا کے سامنے تھا۔
ہمیشہ کیلئے چہرے نقابوں میں نہیں رہتے
سب ہی کردار کھلتے ہیں کہانی ختم ہونے پر
٭بھارت کو ٹرمپ انتظامیہ سے توقع تھی کہ چین کا مدِمقابل ہونے کی بنا پر ساتھ دے گی لیکن یہ توقع بھی اس وقت نقشِ برآب ثابت ہوئی جب پاکستان کی مؤثر سفارتکاری کی بدولت بھارت سلامتی کونسل کی قرارداد میں اپنی پسند کے الفاظ تک شامل کرانے میں ناکام ہوگیا۔
٭مضبوط اور دوٹوک چینی حمایت نے بھی پاکستان مخالف فضا نہ بننے دی۔ آج کل ٹرمپ ٹیرف میں کمی کے لیے چین سے مفاہمت کے آرزومند ہیں، وہ بھارت کی بے جا حمایت سے چین کو مزید ناراض نہیں کر سکتے۔ روس بھی ماضی کی تلخیاں بھلا کر اشتراک و تعاون کی روش پر گامزن ہے۔ اِس لیے روس نے ایک پلڑے میں وزن ڈالنے کی بجائے حقیقت پر مبنی غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا۔
٭پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کے متفقہ موقف نے بھارتی قیادت کو پریشان کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ معاشی طورپر کمزور اور سیاسی حوالے سے غیر مستحکم پاکستان مقابلہ سے اجتناب کرے گا مگر خلافِ توقع ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ ہر قسم کی تجارت بند کرنے کے ساتھ پاکستان نے اپنی فضائی حدود تک بھارت کے لیے بند کر دیں۔ یہ جواب توقعات سے بڑھ کر تھا۔ ٭آبی جارحیت کو جنگی اقدام تصور کرنے کے اعلان سے واضح ہوگیا کہ پاکستان دفاعی حکمتِ عملی تک محدود رہنے کی بجائے حملہ بھی کر سکتا ہے۔ ٭قلیل مدت میں بری، فضائی اور بحری قوت کو فعال کرنا اسی طرف اِشارہ تھا میزائل نظام کی تنصیب میں کمال سرعت کا مظاہرہ بے خوفی کی دلیل ہے۔ یہ اقدامات فروری 2019کی طرح ایک اور حیران کن جواب کے آثار کو قوی تر بنانے کے لیے کافی تھے جس سے مودی، راج ناتھ، امیت شا اور اجیت ڈوول جیسے منہ سے جھاگ اڑاتے لوگ بے بس و لاچار ہوئے۔
ہم چارہ گر کو یوں ہی پہنائیں گے بیڑیاں
قابو میں اپنے گر، وہ پری زاد آ گیا
پاکستان ایک ایسی جوہری طاقت ہے جس نے بے سروسامانی میں بھی قیام کے ایک برس بعد ہی 1948کی جنگ بہادری سے لڑی، 1965میں بھی بھارت کو ایسی دھول چٹائی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔
سیاچین اور کارگل کی محدود لڑائیوں میں پاک فوج نے 8گنا بڑے دشمن کو دندان شکن جواب دیا اور پھر 2021کی فضائی جھڑپ نے پاک فوج کی حربی صلاحیت کی دھاک بٹھا دی۔ پاکستان کا جوہری اور میزائل پروگرام جدید ترین ہے، اس کی طاقتور فضائی، بری اور بحری فوج کسی بھی وقت اور کہیں بھی حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ بھارتی لڑاکا طیارے جنگ سے قبل ہی گرتے یا اپنے شہروں پر بمباری کرتے نظر آتے ہیں۔ پہلگام حملے پر مودی نے اپنی سیکورٹی ناکامی چھپانے کے لیے نے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ اگر پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ہوتے تو وہ حق بجانب تھے کہ سندھ طاس کا پانی بند اور دوسرے اقدامات کرتے۔ یہی بات مودی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ پہلگام حملے کے ”دہشت گرد” تو پکڑے نہیں جا سکے۔ بس فرض کر لیا گیا ہے کہ یہ پاکستان کی طرف سے آئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ”چنار کور” سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ22اپریل کو وہ کہاں تھی؟ حقائق سے لاعلم جنونی بھارتی میڈیا جنگ کا ماحول بنانے کے لیے کوشاں رہا۔ بھارت تو علیحدگی کی تحریکوں پر قابو پانے میں ناکام ہے لیکن مشرقی سرحد پر سخت کشیدگی کے باوجود بھارتی ایما پر افغان سرحد سے ہونے والی دراندازی کو پاکستان نے کچھ اِس طرح ناکام بنایا کہ جدید ترین اسلحہ سے لیس تمام تر 54دہشت گردوں کو بھون ڈالا۔ لڑائی کے ایسے تجربے، مہارت اور صلاحیت پاکستان کو حاصل ہے۔ محدود نوعیت کی جھڑپوں کا اب بھی امکان ہے۔ اگر بڑی جنگ ہوتی ہے تو پاک فوج حیران کن نتائج دے سکتی ہے۔ پہلگام واقعے پر ”را” کی خفیہ دستاویز لیک ہونے کے بعد بھارت کی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی (ڈی آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرڈی ایس راناکو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ لیک دستاویز نے ”را” اور مودی کا عالمی سطح پر مذاق بنا دیا اور پہلگام آپریشن کی صداقت پر بھارتی حکومت کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے اور دنیا پر بھارتی دروغ گوئی کی اصلیت واضح ہوگئی۔
ڈاکوؤں کے جتھے پر فقر کی رِدائیں ڈال
رہزنی کی کوشش میں رہبری کی باتیں کر
آفتاب تو بھی تو منصفوں میں شامل ہے
ساتھ دے برائی کا راستی کی باتیں کر